اتھارٹی یا خُدائی؟


یوں تو اتھارٹی (اقتدار یا اختیار) ایک جائز طاقت ہے جس کے ذریعے کسی دوسرے پر قابض آیا جا سکتا ہے مگر ہمارے یہاں اس کا استعمال ہمیشہ غلط کیا جاتا ہے اور ہم اس چار روزہ طاقت کے گھمنڈ میں دوسروں کو انسان سمجھنا بھول جاتے ہیں۔ اتھارٹی اتھارٹی ہوتی ہے چاہے کسی بڑے سلطان کی سلطانی کی صورت میں ہو، والدین کے پاس ہو، کسی عہدے دار کے عہدے کی طاقت ہو یا روزمرہ کے واقعات میں کسی عام فرد کے پاس کسی لمحے، کچھ وقت یا کچھ مدت کے لیے ہو۔

اتھارٹی میں ایسی صلاحیت ہے کہ یہ بندے کو بیٹھے بیٹھے خدا بنا دیتی ہے۔ یہ اتھارٹی کے لیے عمر، عہدے، وقت کی کوئی قید نہیں اتھارٹی کسی بھی صورت میں کسی فرد کے پاس بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہ اتھارٹی پانے والا چاہے کسی بھی عمر کا شخص یا بھلے بچہ ہی کیوں نہ ہو خود کو ابدی حاکم محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ زوال کے لفظ کو اپنی لغت سے خارج کر دیتا ہے۔ اتھارٹی چھِن جانے کا خیال اُسے چھو کر بھی نہیں گزرتا گویا وہ خود کو اندر ہی اندر خدا سمجھنے لگ جاتا ہے۔

اتھارٹی جب بھی جس کے پاس بھی آئی ہے اُس نے ایک سی ہی روش اپنائی ہے جس میں وہ باقی سب کو کٹھ پتلی اور خود کو اُنھیں نچانے والا محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے کسی بڑے عہدے یا کوئی بڑی سیاسی طاقت کی مثال پیش کرنا بھی ضروری نہیں بلکہ اسے ہم کسی عام چھوٹے سے بچے کی عام سی مثال سے بھی ٹھیک سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اتھارٹی ہر خاص و عام، چھوٹے بڑے، امیر غریب کو تفخر، بڑائی اور خدائی کا رنگ چڑھا دیتی ہے۔ مجھے یاد ہے، کلاس میں جب کسی بچے کو کوئی استاد ذمہ داری سونپ دیتا تو وہ یک دم کلاس فیلو سے جلاد بن جاتا ہے۔

یا کلاس مانیٹر، یہ عہدہ ملتے ہی ایسا اکڑو، نک چڑا، رعب دار، بن جاتا کہ اس کی آڑ میں دوستی، یاری سب روندتا ہوا کلاس میں کسی شور کرنے والے کو ایسے گھورتا جیسے اکبر کی رعایا نے اس کی شان میں گستاخی کر دی ہو۔ اور جھٹ سے صفحے پر شور مچانے والوں میں نام لکھ دیتا۔ اور وہ جن کے پاس اختیار نہ ہوتا چُپ چاپ غصے میں اندر ہی اندر تلملاتے، اُسے کوستے، اور چپ چاپ بے عزتی کے لیے تیار ہو جاتے۔

یہ بات ٹھیک ہے، انسان کو اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھانی چاہیے مگر اس بات کو ذہن نشین بھی رکھنا چاہیے کہ جس اتھارٹی کے بل بوتے پر ہم اتنا اکڑ رہے ہیں وہ چھِن جانی ہے اور پھر منہ انھی لوگوں سے لگنا ہے۔ مگر خدائی کا عنصر جب خود میں نظر آنے لگ جائے تو اتھارٹی کے عارضی ہونے کا خیال خود بخود جاتا رہتا ہے۔ اگر بچوں کا ہی یہ رویہ ہے تو سیاسی طاقتوں، بڑے عہدے داران کا خود میں خدائی صلاحیتیں دیکھنا تو بجا ہے۔

زہنوں میں کوئی سوال نہ رہ جائے سو ایک ایسی مثال بھی دیکھتے ہیں جہاں اتھارٹی کو اللہ کی دین نہ کہ اپنی لین سمجھا جائے اور اتھارٹی کا استعمال طریقہ کار کے تحت کیا جائے جس میں نہ تو کسی کے احساسات کا قتل ہو اور نہ جبریت ہو۔ جس میں عروج و زوال اور خدا کی تنہا خدائیت شناسائی ہو۔

مصنف کو اگر کلاس میں کبھی ایسا موقع میسر آتا تو صفحے پر شور کرنے والوں کے نام بھرنے کی بجائے ان کے ساتھ کوئی کاغذی گیم کھیلتا جس میں شور نہ ہو یا کسی کو کوئی کہانی سُنانے کو کہا جاتا۔ یعنی رعب و دبدبے کے بجائے کوئی مناسب حل تلاش کیا جاتا۔

اب جب کلاس میں ٹیچر آ جاتیں تو مصنف کی اتھارٹی تو فی الفور ختم ہو جاتی مگر کم از کم بعد میں سب سے نظریں ملانے کے قابل رہ جاتا۔

جہاں ہم بچوں کی تربیت میں نئے نئے گُر استعمال کرتے ہیں وہاں اس بات کی تربیت دینا بھول جاتے ہیں اور کل کو یہی بچے بڑے عہدوں پر جا کر اتھارٹی نہیں، خدائی پا لیتے ہیں۔

معاشرے کی اس افسوسناک روایت کو کون بدلے گا؟ اساتذہ؟ یا ماں باپ؟

جن کے ہاتھوں میں تربیت کی چھڑیاں ہوتی ہیں وہ تو خود اتھارٹی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بچوں کی پسند کیا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں، ماں باپ کی بات ہی ماننی ہے، نہیں مانی تو تھپڑ رسید کر کے دو منٹ میں بچے کی عزتِ نفس کو تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔ پھر اساتذہ ہیں تو ان کی سوچ اور ان کا حرف ہی حرفِ آخر ہے، طلباء کی کیا مجال کے وہ اپنا نکتہ نظر پیش کریں۔

خدا کی خدائی کے سوا ہر خدائی کو زوال ہے۔ کبھی کوئی اتھارٹی دائمی نہیں ہوا کرتی۔ ہر اتھارٹی عارضی ہے۔ سو اگر کبھی خدا کی دین اور کچھ اپنی محنت و کاوش سے اتھارٹی پا لی جائے تو دوسروں کے احساسات، جذبات، خیالات کو روندنے کے بجائے ان کے ساتھ اعلی رویہ اپنایا جائے اور عاجزی و زوال کے مفہوم کو سمجھ کے عمل کر لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments