ناروے میں سرکاری میڈیا بھی آزاد ہے


ناروے جانے کا ارادہ بندھا تو سب سے پہلا رابطہ دانیال سے ہوا۔ دانیال یونیورسٹی میں میرا شاگرد ہوا کرتا تھا۔ چند برسوں سے وہ اپنی بیوی ارم کے ساتھ اوسلو میں مقیم ہے۔ میں نے اسے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اپنے ممکنہ سفر سے متعلق بتایا تو اگلے روز اس نے فون پر رابطہ کیا۔ خوش دلی سے مجھے دعوت دی کہ ہوٹل کے بجائے اس کے گھر ٹھہروں۔ دوسرا رابطہ ثاقب سے ہوا۔ ثاقب براہ راست میرا شاگرد نہیں، البتہ اس ادارے میں زیر تعلیم ہے جہاں میں پڑھاتی ہوں۔

ان دنوں وہ سمسٹر ایکسچینج پروگرام کے تحت اوسلو کی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔ میرا تیسرا رابطہ رابعہ سے ہوا۔ رابعہ یونیورسٹی میں میری کلاس فیلو ہوا کرتی تھی۔ وہ ایک نیوز چینل میں رپورٹر ہے اور سماجی موضوعات پر اچھی رپورٹنگ کرتی ہے۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ بھی کانفرنس میں شرکت کے لئے ناروے جا رہی ہے۔ میں نے سوچا کہ اوسلو میں دانیال، ثاقب اور رابعہ کی موجودگی میں گھومنے پھرنے میں لطف رہے گا۔

جس شام میں ناروے پہنچی، ہوٹل کے کمرے میں آتے ہی میں نے دانیال اور ثاقب کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ کچھ ہی دیر بعد ثاقب کی کال موصول ہوئی۔ اس نے ہوٹل آنے کی اجازت طلب کی تاکہ مجھے اوسلو گھما سکے۔ اگرچہ کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد میں سونے کا قصد کیے بیٹھی تھی۔ تاہم اوسلو گھومنا اور رات کے وقت اس شہر کی بتیاں دیکھنا بستر پر پڑ کر سورہنے سے کہیں بہتر آپشن تھا۔ ٹھیک آدھ گھنٹے بعد ثاقب ہوٹل کی لابی میں موجود تھا۔

اگلے دو اڑھائی گھنٹوں تک ہم پیدل اوسلو کی سڑکیں ناپتے رہے۔ مختلف شاہراہوں، شاپنگ پلازوں، دکانوں، پارکوں، رہائشی علاقوں، جھیل، اور نائٹ کلب کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم نے شہر کا ایک لمبا چکر لگایا۔ میرے نزدیک کھانے پینے کے بغیر سیر و تفریح کا تصور ادھورا ہے۔ ثاقب سے میں حلال کھانوں کے ٹھکانوں کے متعلق معلومات لیتی رہی۔ وہ مجھے دور دراز کی ایک جگہ دکھانا چاہتا تھا جہاں ہر طرح کے پاکستانی کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔

میں نے کہا کہ کھانے پینے سے مجھے خاص رغبت سہی لیکن اس قدر نہیں کہ اس کی تلاش میں ماری ماری پھرا کروں۔ راستے میں واقع ایک عرب ریستوران سے شوارما لے کر کھایا اور واپسی کی راہ لی۔ ثاقب نے ایک بات کی طرف خاص طور پر میری توجہ مبذول کی۔ وہ یہ کہ اگر ٹریفک کے لئے سگنل کھلا ہو اور پیدل چلنے والوں کے لئے بند، اس کے باوجود ہم سڑک پار کرنے لگیں تو گاڑیاں دور ہی سے بریک لگا لیتی ہیں۔ کہنے لگا کہ دیکھیں اس ملک میں پیدل چلنے والوں کے حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔ اگلے دو تین دن میں اپنے تجربے اور مشاہدے کے لئے عملی طور پر یہ غیر اخلاقی (بلکہ جاہلانہ) حرکت بار بار کرتی رہی۔ یعنی سڑک کنارے چلتے چلتے اچانک سڑک پار کر نے لگتی اور ساری ٹریفک کو روک دیتی۔ ایسے میں اپنے پیارے ملک کی ٹریفک اور ڈرائیور مجھے خوب یاد آتے۔

ہوٹل واپس پہنچی تو موبائل پر دانیال کے پیغامات منتظر تھے۔ دانیال نے ہوٹل کا نام پتہ معلوم کیا اور کچھ دیر بعد وہاں آن پہنچا۔ تیسری منزل سے اتر کر جب میں لابی میں پہنچی تو اس نے دور سے ہی با آواز بلند سلام کیا۔ سعادتمندی سے کھڑے ہو کر اپنا سر جھکا دیا۔ میں نے بزرگانہ انداز میں اس کا شانہ تھپکا اور بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔ دانیال کی بیوی ارم انصاری ناروے کے سرکاری ٹیلی ویژن این۔ آر۔ کے میں رپورٹر ہے۔

خواہش میری یہ تھی کہ میں ناروے کی صحافت اور میڈیا کے احوال معلوم کر سکوں۔ یہ جان کر دانیال نے جھٹ ارم کو فون کیا۔ طے یہ پایا کہ کل ہم این۔ آر۔ کے جائیں گے اور پھر وہ دونوں مجھے اوسلو گھمائیں گے۔ شیڈول طے کرنے کے بعد دانیال رخصت ہوا۔ رابعہ بھی اوسلو پہنچ چکی تھی اور اسی تھون ہوٹل میں مقیم تھی۔ اگلی صبح ہم نے اکٹھے ناشتا کیا۔ کچھ پرانے قصے چھیڑے اور زمانے بھر کی باتیں کیں۔ پتہ یہ چلا کہ جس ریستوران مینیجر کو میں کل تک نارویجن سمجھ رہی تھی وہ پاکستانی ہیں۔

عمر رسیدہ انور صاحب نے بتایا کہ وہ ستر کی دہائی میں یہاں چلے آ ئے تھے۔ کہنے لگے کہ اس زمانے میں ملکی حالات رہنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ان کی یہ باتیں سن کر میں نے سوچاکہ انور صاحب کو کیا معلوم کہ اب ہم نے اس ملک کو کس حال تک پہنچا دیا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم بنگلہ دیش، افغانستان اور صومالیہ کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔

بہرحال ناشتے کے بعد ہم نے کانفرنس کی راہ لی۔ ایک دو سیشن میں شرکت کے بعد میں اور رابعہ ہو ٹل واپس آگئے۔ دوپہر میں دانیال وقت مقررہ پر مجھے لینے آیا تو رابعہ بھی میرے ساتھ ہو لی۔ ہم ٹرین میں سوار ہوئے۔ دانیال چونکہ اضافی ٹرانسپورٹ کارڈ ساتھ لے کر آیا تھا، لہذا ہمیں ٹکٹ نہیں لینا پڑا۔ کچھ ہی دیر میں ہم ناروے کے سرکاری ٹی۔ وی چینل کے ریسپشن پر موجود تھے۔ ارم ایک گلدستہ تھامے چلی آئی۔ وہ مجھے اچھی لگی۔ سادہ اور پر خلوص۔ بہت محبت سے ملی اور اپنے دفتر میں لے گئی۔ اس کے بعد ہمیں چینل کے مختلف حصے دکھاتی رہی۔ نیوز روم، سٹوڈیوز، ایڈیٹنگ روم، اور میک اپ روم وغیرہ۔ آخر میں وہ ہمیں لیے ڈریسنگ روم میں چلی آئی۔ جہاں مختلف سائز اور رنگوں کے سینکڑوں ملبوسات سلیقے سے ٹنگے تھے۔ ڈریسنگ روم کو دیکھ کر کسی وسیع و عریض بوتیک یا گارمنٹ شاپ کا گمان ہوتا تھا۔ یہاں پر ہم سب نے ایک تصویر لی۔ تصویر کے لئے ارم نے ریک پر دھرے گلابی ہیٹ ہم سب کو پہنائے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ باقی سب تو بہت اچھے دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ میں (حسب معمول) سب سے بری نظر آتی ہوں۔ میری آنکھیں بھی (حسب عادت) بند ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس تصویر کو ڈیلیٹ کر دوں۔ مگر پھر اتنی یاد گار تصویر ضائع کرنے کو دل نہیں مانتا۔

ناروے کا سرکاری ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے لامحالہ مجھے پاکستان کے سرکاری ٹی۔ وی کا خیال آگیا۔ میں برسوں اس ادارے کے ساتھ منسلک رہی ہوں۔ مجھے اس سے خصوصی لگاؤ ہے۔ این۔ آر۔ کے کا جائزہ لیتے ہوئے میں اس کا موازنہ پی۔ ٹی۔ وی سے کرتی رہی۔ خیال مجھے یہ آیاکہ اتنے شاندار ماضی کے حامل ادارے کو برسوں پر محیط نا اہلی اور غفلت نے کس حال تک پہنچا دیا ہے۔ ہر حکومت پی۔ ٹی۔ وی کی اصلاح احوال کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ مگر آخر میں نتیجہ صفر رہتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ موجودہ حکومت نے پی۔ ٹی۔ وی کو بی۔ بی۔ سی کی طرز پر آزاد ادارہ بنانے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ چند ہی ماہ میں آزادی صحافت پر وہ ناگہانی ا فتاد ٹوٹی کہ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں نے بھی پی۔ ٹی۔ وی کا روپ دھار لیا اور ”“ مثبت رپورٹنگ۔ ”کے احکامات عالیہ کی بجا آوری میں مصروف ہو گئے۔ میرے استفسار پر ارم نے بتایا کہ ناروے میں سرکاری میڈیا کو مکمل آزادی حاصل ہے اوراسے کسی قسم کے حکومتی دباؤ کا سامنا نہیں۔ یہ باتیں سنتے ہوئے مجھے ورلڈ وائیڈ پریس فریڈم انڈیکس (worldwide press freedom Index) کی حالیہ درجہ بندی یاد آگئی۔ اس انڈیکس میں ناروے کا میڈیا پہلے درجے پر کھڑا ہے۔ مطلب یہ کہ آزادی صحافت کے تناظر میں نارویجن میڈیا دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔

بہرحال اس کے بعد ارم اور دانیال نے ہم دونوں کو گاڑی میں بٹھایا اور ہم سب کانفرنس میں چلے آئے۔ یہ الزبتھ کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ الزبتھ اوسلومیٹ یونیورسٹی میں ابلاغیات کی پروفیسر ہے۔ ماضی میں وہ باقاعدہ شعبہ صحافت سے منسلک رہی ہے۔ وہ اکثر پاکستان آتی رہتی ہے۔ پاکستان میں اس کا حلقہ احباب کافی وسیع ہے۔ ہم تینوں نے الزبتھ سے دستخط شدہ کتاب وصول کی۔ وہیں پر پاکستانی نژاد عطا انصاری صاحب سے ملاقات ہوئی۔

وہ سینئر صحافی ہیں اور این۔ آر۔ کے سے منسلک ہیں۔ اس تقریب کے بعد کانفرنس ڈنر کا اہتمام تھا۔ دانیال، ارم اور عطا انصاری صاحب کا خیال تھا کہ اس بوریت زدہ ڈنر کے بجائے، باہر جا کر کھانا کھایا جائے۔ ایک بار پھر ہم ارم کی گاڑی میں سوار ہوئے اور ایک پاکستانی ریستوران جا پہنچے۔ کھانا بلا شبہ مزے دار تھا۔ تاہم اصل لطف اس اچھی کمپنی کا تھا جو اس وقت ہمیں میسر تھی۔ کافی دیر تک ہم پانچوں وہاں بیٹھے، دنیا جہان کی باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد عطا انصاری صاحب تو رخصت ہوئے، ہم مگر ارم اور دانیال کی گاڑی میں بیٹھے رات گئے تک اوسلو شہر کا جائزہ لیتے رہے۔

سچ یہ ہے کہ اگر دانیال اور ارم سے ملاقات نہ ہوتی تو ناروے کا یہ سفر ادھورا رہتا۔ وہ دونوں اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر مجھے اوسلو گھماتے رہے۔ میں ان کی محبت بھری میزبانی کی مقروض ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ انہیں خوش رکھے۔ آمین۔ (جاری ہے )

۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments