جماعت اسلامی کیوں ناکام ہے؟



\"tanveer حال میں ہی محترم سلیم صافی صاحب نے ایک مضمون لکھا اور ان کا استدلال تھا کہ جماعت اسلامی ہی حقیقی جمہوری جماعت ہے۔ سراج الحق ہی اس ملک کے عام طبقے کی آواز ہیں۔ وہ تمام اچھی خوبیاں جو کسی جمہوری جماعت میں ہونی چائیں جماعت اسلامی میں موجود ہیں۔ لیکن صافی صاحب یہ سمجھانے سے قاصر رہے کہ اگرسب اچھا ہے تو عوام ووٹ کیوں نہیں دیتی؟ یہی جماعت اسلامی دھرنے دے کر حکومتیں گرا سکتی ہے۔ تو آخر وہ کیا وجوہات ہیں۔ جو جماعت اسلامی انتخابی سیاست میں ہمیشہ سے ناکام ہوتی آئی ہے۔

ایک زمانے کی بات ہے کراچی میں جماعت اسلامی سب سے بڑی جماعت تھی اور بجا طور پر یہ نعرہ درست تھا کہ\” یہ شہر کراچی جماعتی\”۔ مولانا عبدالستار افغانی دو اور نعمت اللہ خان ایک مرتبہ اسی شہر کراچی سے مئیر منتخب ہوئے۔ اسی شہر کراچی سے جماعت اسلامی کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اکثر ممبران منتخب ہوئے۔ کراچی پیرس تو نہیں بنا لیکن کراچی میں پورے ملک سے روزگار کے لئے لوگ آتے تھے۔ لیکن آج جماعت اسلامی پر ایسا زوال ہے جب کہ کسی زمانے میں کراچی شہر کے 50 میں سے 49 ناظم جماعت کے تھے۔ اگرچہ بہت زیادہ ترقیاتی کام کرائے گئے تو پھر ووٹ کیوں نہیں ملا اور آج پانچویں نمبر کی پارٹی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات ہیں جن کو جماعتی ماننے سے انکاری ہیں۔ لیکن حقائق بدلے نہیں جاسکتے۔
تشکیل جماعت سے لے کر اب تک جماعت اسلامی دو کشتیوں کی سوار رہی ہے۔ اگر ہم \”روداد جماعت اسلامی حصہ اول\” کا مطالعہ کریں تو وہاں کہیں بھی ووٹ الیکشن کا ذکر نہیں ملتا۔ تشکیل جماعت کا ایک ہی مقصد سامنے آتا ہے بلا تخصیص رنگ و نسل اور مذہب بندگان خداکی اصلاح کرنی ہے۔ جو پہلے سے مسلمان ہیں ان پر خصوصی توجہ دینی ہے اور غیر مسلموں کو اپنے اخلاق و کردار اور عمل کے ذریعے اسلام کی دعوت دینی ہے۔ یہاں پر اتنا اضافہ ضرور ہے کہ جب اتنے زیادہ لوگ ہوجائیں کہ اکثریت اسلام پسند ہو تو حکومتی زمام کار نیک اورصالحین کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ یعنی کہ جمہوری اصطلاح میں اگر 51 فیصد عوام اسلام پسند ہے اور جماعت کے ساتھ ہیں تو ہی اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہو پائے گا۔

اب جماعت نے اسی مقصد کے تحت کام شروع کیا اور الیکشن سے دور رہی۔ جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی میں ایک وقت میں عالمی سطح کے رہنماء سامنے آئے۔ مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا منظورنعمانی،ڈاکٹراسراراحمد،مولاناکوثرنیازی سمیت دیگر جماعت اسلامی ہی کی پراڈکٹ ہیں۔ سیاست میں انٹری سے قبل سب اچھا تھا لیکن جیسے ہی جماعت اسلامی سیاست میں قدم رکھتی ہے۔ اندرون خانہ بھی اس عمل کو ناپسند ہی کیا گیا کیوں کہ بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس اسلام پسند اکثریت تو موجود تھی لیکن اسلامی نظام کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔ اس لئے ایسے میں کیسے زمام کار \”باطل پرستوں\”سے لے کر \”نیک اور صالحین\” کے ہاتھ میں دیا جاتا۔ لیکن جماعت اسلامی نے روداد جماعت اسلامی حصہ اول کے اپنے ہی فیصلے کو نظر انداز کیا اور عملی میں سیاست میں کود پڑی۔

جماعت اسلامی نے شروعات میں تو اچھی کامیابیاں سمیٹیں۔ لیکن جماعت اسلامی کی ساخت اجتماعیت کا تقاضہ کرتی ہے۔ کارکنان اور ارکان کے ہفتہ وار اجتماعات ہوتے ہیں۔ صرف درس قرآن عوامی مقامات پر ہوا کرتے تھے۔ جو کہ عوام کی جماعت میں جوق درجوق شمولیت کا باعث تھے۔ لیکن جیسے جیسے سیاسی سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما عوام کے بجائے اپنے کارکنان تک محدود ہوتے گئے۔ جب دعوت کا میدان تھا تو جماعت کے دروس عام عوام کے لئے ہوتے تھے۔ اب جماعت اسلامی کا درس قرآن صرف کارکنان جماعت اور ارکان جماعت تک محدود ہوگیا۔ رفتہ رفتہ جماعت کے سرکردہ رہنماء بھی جماعت چھوڑ گئے۔ ان میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب جو کہ محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد بھی ہیں اور تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد سرفہرست ہیں۔
جماعت اسلامی کی ناکامی کی بنیادی وجہ اس کی تنظیمی ساخت ہے۔ یہاں رکن کی اہمیت ہے۔ اور رکن کا طریقہ کار اسقدر سخت ہے کہ ہر عام فرد رکن نہیں بن سکتا۔ اسی طرح کارکن پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ کارکن کسی قسم کی غیر اخلاقی یا غیر قانونی عمل میں ملوث ہو تو اس کو فارغ کردیا جاتا ہے۔ اصلاح کرنا تو دور کی بات ہے۔ یہاں سب سے اہم نکتہ کہ آپ جب اپنی بنیاد سے ہٹیں گے۔ جس بنیاد پر آپ کی پوری منزلیں کھڑی ہیں۔ پوری تحریک کھڑی ہے تو پھر آپ کیونکر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آج جماعت اسلامی ضرور اچھی ہوگی۔ باقی تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر ہوگی۔ لیکن یہ سب جماعت کے کارکنان کو ہی پتہ ہے۔ آج اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ جماعت اسلامی حقیقی جمہوری جماعت ہے لیکن عوامی جماعت نہیں۔ جب عام کارکنان کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ امیر جماعت کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکیں تو پھر کس لحاظ سے عام انتخابات میں انہی عام عوام سے ووٹ کی توقع کی جاتی ہے۔
جماعت اسلامی کارکنان لمیٹڈ پارٹی بن چکی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماء عوام سے خطاب ہی نہیں کرتے ہیں۔ ہر پروگرام میں یہی ہوتا ہے کہ اجتماع کارکنان سے خطاب میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ میرا اپنا ایک واقعہ ہے کہ میرا اسائمنٹ تھا جس کے لئے جماعت کے ایک پروگرام یا اجتماع میں جانے کا موقع ملا تو ایک چھلے والا وہاں اپنے ٹھیلے کے ساتھ موجود تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ بنوں کا رہنے والا ہے اور کراچی میں چھلے فروخت کرتا ہے۔ اس دوران لیاقت بلوچ صاحب تقریر کر رہے تھے میں نے کہا ان کو جانتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ میں نے پوچھا کہ جماعت کے کس لیڈرکو جانتے ہو۔ جواب آیا منور حسن اور قاضی حسین احمد کو باقی ایک سوات والا بھی ہے جو ٹیڑھی ٹوپی لگاتاہے۔ میں نے کہا کسی بڑے سیاستدان کو جانتے ہو پاکستان کے۔ فٹ سے بولا عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری۔ اسی پروگرام میں ایک آئس کریم والا جو ملتان کا رہنے والا تھا، اس سے بھی اسی قسم کی گفت و شنید ہوئی وہ جماعت کے حافظ سلمان بٹ کے علاوہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ ہاں عمران خان، نوازشریف اور زرداری صاحب کو وہ بھی جانتا تھا۔ اچھا اسی اجتماع میں لیاقت بلوچ صاحب نے سی پیک اور پاک بھارت تعلقات پر انتہائی مدلل گفتگو کی اور بہترین باتیں کیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی عالمانہ گفتگو کوئی وزیر خارجہ بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ ایک عام بندے کو پاک بھارت تعلقات سے یا پاک چائنہ اکنامک کوری ڈور سے کیا لینا دینا۔

جماعت اسلامی کی پوری سیاست اسلامی نظام پر کھڑی ہے۔ لیکن جماعت کے موجودہ افراد کا بھی یہ حال ہے کہ کسی بھی رکن جماعت سے پوچھ لیں۔ بھیا یہ اسلامی نظام کیا ہے اور کیسے نافذ ہوگا یقین کریں اگر جواب دے دیا تو میرا سر ہوگا اور آپ کی جوتی۔ ایک عام پاکستانی کا مسئلہ اسلامی نظام نہیں ہے۔ ایک عام بندے کے گھر اس کے بیوی بچے ہیں۔ جن کا پیٹ بھی ہے۔ انہیں بھوک بھی لگتی ہے۔ اسے نوکری بھی کرنی ہے۔ بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے۔ انہیں تعلیم بھی دلانی ہے۔ ان کی شادیاں بھی کرانی ہیں۔ ایک عام بندے کو روٹی کپڑا اور مکان چاہیے۔ ایک عام بندے کا جماعت سے کیا لینا۔ ایک عام بندے کو اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام نہیں چاہیے۔ اسے تو معلوم ہی نہیں کہ اسلامی نظام کیا ہوتا ہے۔

یہاں تمام تر اختلافات کے باوجود تمام نظریات کے حامی یہ مانتے ہیں کہ معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں اس معاشرے کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو صحیح معنوں اسلام سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ تو کیوں نہ جماعت اسلامی اپنے اصل مقصد کی طرف توجہ دے۔ کیوں نہ جماعت اسلامی اجتماع کارکنان اور ارکان سے نکل کر عوامی اجتماعات کرے۔ کیوں نہ جماعت اسلامی دروس قرآن کا اہتمام کرے۔ کیوں نہ جماعت اسلامی اسوہ حسنہ کی روشنی میں مدینہ کی اسلامی ریاست کے بنیادی خدوحال سے عام عوام کو روشناس کرائے۔ کیوں نہ جماعت اسلامی تعلیمی اصلاحات کے لئے تحریک چلائے۔ کیوں نہ جماعت اسلامی واضح ہو کر سامنے آجائے۔ کیوں نہ جماعت اسلامی حق کو حق کہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی نے ایسا نہیں کرنا ہے۔ پاکستان کی وہ واحد پارٹی جماعت اسلامی ہی ہے جو کسی کی مخالف نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے گزشتہ دو ادوار میں نہ تو پیپلزپارٹی کو للکارا ہے اور نہ ہی ن لیگ کی حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلائی ہے۔ ان سب کے باوجود بھی ہم اگر سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہی کیوں نہیں تو یہ ہماری خوش فہمی ہی کہی جاسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments