ایران امریکا کشیدگی سے فاصلہ رکھنے کی ضرورت


امریکہ کی طرف سے ایران کے تاریخی ثقافتی مراکز سمیت 52 تنصیبات پر حملوں اور نیا خفیہ تباہ کن ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیوں نے عالمی امن کے لئے جو شدید خطرات پیدا کر دیے ہیں، ساری دنیا میں ان پر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پاکستان سمیت امن پسند ممالک فوری طور پر متحرک ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے اس سلسلے میں باضابطہ اور بروقت سفارتی کوششیں شروع کرنے کے ساتھ فریقین سے طاقت کے یک طرفہ استعمال سے گریز کی اپیل کی ہے۔

پاکستان کا موقف واضح کرتے ہوئے فوجی ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان صرف امن کا پارٹنر ہے، ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، نہ خطے میں امن خراب کرنے والے عمل کا حصہ بنیں گے۔ پاکستان کا ردعمل محتاط اور قومی مفادات کا آئینہ دار بھی ہے، پاکستان نے ماضی میں ایسے کئی تجربات سے گزرکر سبق سیکھا ہے۔

یہ امر واضح ہے کہموجودہ محاذ آرائی کی پہل امریکا نے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر کے کی ہے جس کے بعد عراق اور ایران میں امریکا کے خلاف نفرت اور غم و غصہ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ ایران امریکا کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے، لیکن اس کے پاس امریکا سے لڑنے کے لیے جنگی قوت اور وسائل موجود ہیں، اس لیے کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا بھی اچھا خاصا نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر جنگ ہوئی تو یہ صرف ایران تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ اسرائیل سمیت خطے کے دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

اس ممکنہ جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے جس طرح افغان جنگ کے اثرات آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان کا یہ فیصلہ بالکل صائب ہے کہ خطے کا امن خراب کرنے والے کسی عمل کا حصہ نہ بنا جائے اور اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور نئے جنم لینے والے کشیدہ حالات سے دور رہا جائے، پاکستان کا سعودی عرب ایران اور دیگر ممالک کو یہ مشورہ بھی بالکل صائب ہے کہ حالات کو خراب کرنے کے بجائے انھیں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ پاکستان نے افغان جنگ سے بہت سے اسباق سیکھے ہیں کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے لاتعداد مسائل اپنے آنگن میں جگہ بنا لیتے اور دوسروں کی آگ بجھاتے بجھاتے ہم اپنا جسم خود اسی آگ میں جھلسا لیتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان بحران زدہ خطے سے جڑا ہوا ہے، امریکا اور ایران ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں، دونوں جانب سے اگلی کارروائی کیا ہوتی ہے، اردگرد کے ممالک دم سادھے منتظر ہیں۔ پا کستانی وزیر خارجہ کے تازہ بیان میں پریشانی صاف پڑھی جا سکتی ہے۔ اس بحران سے چند دن پہلے سعودی وزیرِ خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد یکے بعد دیگرے اسلام آباد کا ایک ایک دن کا دورہ کر چکے ہیں، پاکستان کو کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کے خصوصی اجلاس اور مزید عرب سرمایہ کاری کا لولی پاپ بھی پیش کیا جا چکا ہے۔

پاکستان نے چالیس برس پہلے افغان خانہ جنگی کے اژدھے سے مقابلے کے لیے مغربی و عرب امدادی ویکسین کو محفوظ سمجھنے کی جو غلطی کی تھی، دوبارہ دہرانے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن اس کے لیے جو حفاظتی حکمتِ عملی و دانشمندی درکار ہے کیا پاکستان اختیار کر رہا ہے اور آئندہ کر پائے گا، کیونکہ آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی کے لئے معاشی مضبوط ہو نا ضروری ہے، ورنہ معیشت کمزور ہو تو چار دیواری بھی اپنے معنی کھو دیتی ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ساتھ جڑی مجبوریوں کا تصور کیا جائے تو کہانی ایک جملے میں سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ہماری پچاس کی دہائی سے آج تک دینے والے ہاتھ کی نہیں لینے والے ہاتھ کی خارجہ پالیسی ہے۔ اگر یہاں کے وسائل کو بھرپور اور منصفانہ انداز میں تعلیمی، صنعتی و زرعی ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا اور زرِمبادلہ کے ذخائر اندرونی ضروریات کے حساب سے اپنے بل بوتے پر برقرار رہتے تو ہم بھلے علاقائی حالات پر اپنی مرضی کے مطابق اثرانداز نہ بھی ہو سکتے، تب بھی اپنے آپ کو اس مشروط ادھاری صورتِ حال سے ضرور محفوظ رکھ سکتے تھے، مگر ملکی معیشت کی ابتری میں خطے کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر خود کو الگ رکھنا ناممکن نظر آتا ہے۔

بلا شبہ پاکستان کے لئے دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی طویل جنگ کے بعد ممکن نہیں رہا کہ وہ کسی نئے تنازع کا حصہ بنے، پاکستان اپنی تباہ حال معیشت کو راہ راست پر لانے کے لئے امن کو ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے، لیکن اگر ایرن، امریکہ جنگ چھڑگئی تو پاکستان کے بیانات کی عملی شکل تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی، کیو نکہ ہمیں فریقین میں کسی ایک کا انتخاب کر نا پڑے گا۔ اس وقت سپر پاور امریکا کے در اندازانہ طرز عمل کے جواب میں پاکستانی وزارت خارجہ کے بیانات کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

امریکہ جو بھی کام کرے گا، آپ سے اجازت لے کر نہیں کرے گا، ایسا نہ پہلے کبھی ہوا ہے، نہ اب ایسا ہو گا۔ آزادانہ قومی بیانیے پر عمل کرانے کے لیے جتنی قوت اور عزم درکار ہوتا ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے، اس لیے جذبات میں بیانات پر انحصار کرنے کی بجائے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے آخری لمحات تک خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پا کستانی خارجہ پالیسی کا بہت بڑا امتحان ہے، ایک طرف دنیا کی ایک سپر پاور تو دوسری طرف اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھا ایک دوست اور ہمسایہ ملک ہے، جس نے ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیاہے۔ پا کستا ن جنگ کے دہانے پر بھی امن کے ساتھ ہے، اس لیے پاکستان کو دوست ملکوں کی معاونت سے امریکہ اور ایران کو جنگ سے دور رکھنے اور امن کی جانب لانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا ہوگا۔ اگرکشیدگی جلد دور نہ ہوئی تو عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments