وزیرِ تھپڑ


وزیرِ باشمشیر کے دستِ دندان شکن نے انتہائی قلیل مدت میں دوسرا قلعہِ رخسار فتح کرلیا۔ یہ عظیم الشان کامیابی بھی گزشتہ فتحِ سعید کی طرح ایک شادی خانہ آبادی کی پرمسرت تقریب میں بزور حاصل کی گئی۔ اس دوران محافظانِ وزیر با شمشیر بھی حریفِ ناتواں پر اس بے نظیر فتح و ظفر کا فتح نامہ تحریر کرتے رہے جسے وہاں موجود کچھ بدذوق اور مذاقِ سلیم سے محروم لوگوں نے ٹھڈوں اور گھونسوں سے معنون کیا۔

وزیرِ اناگیر کے شادیوں کی تقاریب میں صحافیوں پر دُبرّر ہتھ چھٹ مظاہرے کے بعد صحافتی حلقوں میں میزبانوں کے خلاف دیگر کھانوں کے ساتھ تھپڑ بھی پیش کرنے پر گہری تشویش پائی جارہی ہے۔

وزیرِ جبر انگیز اور صحافیِ سنسنی خیز کے مابین مبارزت کی وجہ ایسی ہے جو شرفاء کی حدِ ابلاغ سے ماوراء ہے۔ دونوں فریقین کے کسب و کمال میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے، ایک سیاست کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو دوسرا صحافت کے ساتھ۔ صحافت اور سیاست میں دونوں فریقین کے قائم کردہ بلند اخلاقی معیار پر قوم تادیر ان کی ممنون رہے گی۔

وزیر باجبروت لیکن بازی لے گئے ہیں، تھپڑ مارنے جیسے اعلی ترین اخلاقی عمل کا جس استقلال اور دلیل سے وہ دفاع کر رہے ہیں اس کی بھرپور داد نہ دینا زیادتی اور ناقدری ہوگی۔ ہماری روز بروز بہتری کی جانب گامزن سماجی اخلاقیات اور قدروں کے لئے بھی یہ واقعہ ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا۔

وزیرِ تیغ زن کے حالیہ رہنما جو خیر سے اب حاکمِ وقت بھی ہیں نوجوان نسل کی جس تندہی سے اخلاقی تربیت کرتے رہے ہیں وزیرِ قہر انگیز کا اس اخلاقیات کا عملی مظاہرہ نوجوانوں میں نیا جوش و جذبہ پیدا کرے گا۔

موجودہ حکومت نے جہاں معاشی، سفارتی، آئینی اور تعلیمی میدان میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں اخلاقیات کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑ دیے ہیں جس کا ں یّن ثبوت حالیہ واقعہ ہے۔ اس واقعے کو وزیرِ ہتھ چھٹ کا انفرادی عمل قرار دے کر حزبِ اختلاف حکومت سے اس کا کریڈٹ چھین سکتی تھی لیکن حاکمِ وقت اور اس کی کابینہ کی بروقت خاموشی نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس واقعے کی مذمت اور وزیرِ صف شکن کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کر کے حکومت نے ایک اور دور اندیش قدم اٹھایا ہے جس کے لئے وہ بجا طور پر تحسین کی مستحق ہے۔

وزیرِ عدل نواز جو قانون دان بھی ہیں نے علی رؤس الاشہاد جس دلیری اور جرات مندی سے قانون اپنے ہاتھ میں لیا، قانون دان حلقوں میں بھی اس کی بھرپور پذیرائی ہو رہی ہے۔

کچھ سر پھرے لوگوں کا خیال ہے کہ حریف کا عمل جتنا بھی ناپسندیدہ ہو کسی انسان پر ہاتھ اٹھانا انتہائی قبیح عمل ہے جو سراسر شرفِ انسانی کے خلاف ہے۔ غلط عمل کی بیخ کنی قانون ہی کے ہاتھوں ہونی چاہیے۔ برے آدمی پر بھی تشدد اتنا ہی غلط ہے جتنا اچھے آدمی پر۔ برائی کے احتساب کا حق فقط بذریعہ قانون ہی استعمال ہونا چاہیے ورنہ سماجی انتشار بڑھے گا۔ ان سر پھرے لوگوں کی باتوں کو سماجی سطح پر کمال مہارت سے نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کی گزارشات پر عمل کی صورت میں سماجی بہتری کا زبردست خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments