ایران امریکہ تصادم : امریکہ کے ہاتھ میں فرقہ واریت کا پتہ


3 جنوری کو امریکی ڈرون کے حملہ کے نتیجہ میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی اور کچھ دوسرے افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اس کا جواز بیان کرنے کے لئے ٹرمپ صاحب کے پائے کی ذہنیت درکار ہے۔ ورنہ عام انسانوں کے نزدیک تو یہ حرکت دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں کہلا سکتی۔ ایران کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ امریکہ سے اس قتل کا انتقام لیا جائے گا۔ ٹرمپ صاحب نے فوراً ٹویٹ کیا کہ ہم نے ایران میں 52 مقامات کی نشاندہی کر لی ہے۔

اب سے چند گھنٹے قبل ایران نے عراق میں امریکہ کے دو ہوائی اڈوں کو فتح 313 میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ابھی تفصیلات آ رہی ہیں لیکن بہر حال اس تصادم میں یہ ایک خطرناک موڑ ہے۔ اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ نے یہ قتل صرف وقتی اشتعال سے مغلوب ہو کرنہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے تیرہ سال قبل 23 جنوری 2007 کو امریکہ کی کانگرس میں قاسم سلیمانی صاحب کا ذکر کیا گیا تھا۔

اس وقت سلیمانی صاحب صرف برگیڈیر کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ حزب اللہ کو اسلحہ مہیا کر رہے ہیں اور اس تنظیم کو اسرائیل کے بارے میں خفیہ معلومات مہیا کر رہے ہیں۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان ممالک اس وقت محض جوش کا شکار ہونے کی بجائے ہوش سے مد ِ مقابل کی ممکنہ چالوں کا اندازہ لگائیں۔

امریکہ کے سیکریٹری آف سٹیٹ پومپیو صاحب سے جب جنرل قاسم سلیمانی صاحب کے قتل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اصل میں تو اس جنگ کی بنیاد اسی وقت پڑ گئی تھی جب ایران سے جوہری معاہدہ کیا گیا تھا۔ اور اس کے نتیجہ میں ایران کو یہ موقع ملا کہ وہ شیعہ ممالک کا ایک چاند یا ہلال[Shia Crescent] بنائیں۔ دنیا کے نقشے پر اس چاند میں ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن شامل ہوں گے۔ اور یہ شیعہ ممالک ایک چاند کی صورت میں ہمارے اتحادی اسرائیل کو گھیرے میں لیں گے اور اس سے امریکیوں کی زندگی کو خطرہ ہو گا۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ اس موقع پر پومپیو صاحب کو شیعہ سنی مسئلہ کا خیال کیوں آیا۔ یہ کہنا کافی تھا کہ یہ ممالک امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ تاریخ میں ایک سے زائد مرتبہ مصر اور اردن کی اسرائیل سے جنگ ہوئی ہے۔ یہ شیعہ اکثریت کے ملک نہیں ہیں۔ شاید آپ پومپیو صاحب کے مذہبی رحجانات پر حیران ہوں تو ایک اور حیرانی کے لئے تیار ہو جائیں۔

جب اس واقعہ کے بعد امریکی سینٹ کا اجلاس ہوا تو سینٹ میں حکومتی پارٹی کے لیڈر میک کونل نے اس قتل پر ’اعلان ِ فتح‘ کے لئے تقریر کی تو پہلے تو انہوں نے ڈرامائی انداز میں کہاکہ آج صبح ایران کا سب سے بڑا دہشت گرد مارا گیا ہے۔ امریکہ کی فوجوں نے دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے سرکاری سرپرست کو میدان ِ جنگ میں ختم کردیا ہے۔ جنرل سلیمانی صاحب کے عیوب گناتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ قاسم سلیمانی صاحب نے عراق میں لاتعداد سنی عربوں کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا۔

اور اس کے نتیجہ میں داعش کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ان کی جمہوری تشویش قابل ِ غور ہے۔ یہ انکشافات کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ جنرل سلیمانی نے عراق میں داعش کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ڈیموکریٹ ممبران نے اس فیصلے خلاف تقریریں کیں لیکن ہر ایک نے اپنی تقریر کو جنرل سلیمانی کی مذمت سے ہی شروع کیا۔ ڈیموکریٹ سینیٹر وین ہولن نے فلاسفر بنتے ہوئے کہا کہ اصل میں بش انتظامیہ کی طرح موجودہ انتظامیہ یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ ایران ایک شیعہ ملک ہے اور عراق کی اکثریت بھی شیعہ ہے۔جب صدام حسین کو منظر سے ہٹا دیا گیا تو عراق میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ امریکہ کے ایوانوں میں شیعہ ممالک کا ہلال بننے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ گذشتہ سال 17 جولائی کو امریکی ایوان نمائندگان میں تقریر کرتے ہوئے ریپبلکن ممبر میک کال نے یہی رونا رویا کہ ایران لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی گروہ کی مدد کر رہا ہے۔ اور عراق اور شام میں جنگجوؤں کی بھی مدد کر رہا ہے۔ اس طرح تو اس علاقے میں شیعہ ہلال بن جائے گا۔ اور اس سے ہمارے اتحادی اسرائیل کو خطرہ ہو گا۔

’شیعہ ہلال‘ ان صاحب کا پسندیدہ موضوع ہے۔ 13 فروری اور 9 جنوری 2019 کو بھی انہیں صاحب نے اسی ایوان میں یہ نکتہ اُٹھایا تھا کہ اگر یمن میں ایران کے مدد یافتہ حوثیوں کو پنپنے دیا گیا تو اس علاقے میں ایک ’شیعہ ہلال‘ بن جائے گا جس سے اسرائیل کو خطرہ ہو گا۔

یہ واضح ہے کہ امریکہ کے نزدیک اس خطے میں اگر ایران کا اثر و رسوخ بڑھ جائے اور مستحکم ہوجائے تو وہ امریکہ کے مفادات اور خاص طور پر اسرائیل کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن ’شیعہ ہلال‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال صرف اپنے لوگوں میں ایران کا خوف پیدا کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اس قسم کی فرقہ وارانہ اصطلاح کا استعمال یا اس قسم کے امکان سے دوسروں کو خوف زدہ کرنے کا ایک اور مقصد بھی ہے اور وہ یہ کہ سنی دنیا اور خاص طور پر عرب دنیا اس قسم کے امکان سے خوفزدہ ہو کر ایران کے اور زیادہ خلاف ہو کرامریکہ اور اسرائیل کے مزیدقریب ہوجائے۔

اور یہ بات اسرائیل کو پہلے سے زیادہ حفاظت کا احساس دلائے گی تاکہ اسے اسرائیل میں عربوں کی نسل کشی کا پروگرام چلانے میں زیادہ سے زیادہ سہولت ہو۔ گویا عرب ممالک کا یہ خوف فلسطینیوں کی نسل کشی میں مددگار ثابت ہوگا۔ اور ایک طویل عرصہ سے بعض عرب لیڈر ’شیعہ ہلال‘ خطرے کے قائل ہیں۔ ان میں سرِ فہرست اردن کے شاہ عبداللہ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان ہیں۔

شیعہ سنی مسئلہ میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ صرف اسرائیل کی فکر نہیں ہے۔ دنیا میں چار ایسے سمندری راستے ہیں جن پر قبضہ کر کے دنیا میں تیل کی سپلائی کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے دو اہم مقامات آبنائے ہرمز اور باب المندب ہیں۔ آبنائے ہرمز کے اوپر ایران بیٹھا ہے اور ایران کی بندرگاہ میں چین کی دلچسپی ظاہر ہو چکی ہے۔ اور باب المندب کے کے ایک طرف جبوتی اور اریٹیریا ہیں اور دوسری طرف یمن ہے۔

چین جبوتی میں اپنا عسکری مرکز بنا چکا ہے۔ اور یمن میں اس وقت خانہ جنگی ہے۔ ایک فریق ایران کا اتحادی ہے اور دوسرا فریق سعودی عرب کا۔ ان تنازعات کے بہانے ان دو راستوں کے اوپر یا ان کے قریب امریکہ اپنی اور اپنے اتحادیوں کی گرفت مضبوط کرے گا۔ ہم جسے شیعہ سنی تصادم سمجھ رہے ہوں گے، وہ اصل میں تیل کی سپلائی پر اختیار کا قصہ ہوگا۔

اس بات کا خطرہ ہے کہ اس تصادم میں ایران کو مزید گھسیٹ کر زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں سعودی عرب امریکہ سے مزید اسلحہ خریدنے پر مجبور ہوگا۔ اور بعض عرب ممالک اور ایران اور اس کے اتحادی ایک دوسرے سے مزید دور یا دست و گریبان ہوجائیں گے۔ سبق یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ جب واشنگٹن میں ڈگڈگی بجے تو ہم سب ایک دوسرے سے الجھ پڑیں۔ اس میں سب کا نقصان ہے۔ اگر کسی طرح اس موقع پر ایران سعودی عرب سے اپنے اختلافات کم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ سب سے زیادہ موثر انتقام ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments