مسلم لیگ ن کا ٹائی ٹینک اور آرمی ایکٹ کا آئس برگ


قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے بھی برّی فوج کے سربراہ سمیت تمام مسلح افواج کے سربراہان کی مدِت ملازمت سے متعلق قوانین میں ترامیم کے بلوں کی کثرتِ رائے سے منظوری دے دی ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاکستان بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل پیش کیے گئے تھے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد پاکستان کے وزیراعظم کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر سکتے ہیں۔

آرمی ایکٹ کا ترمیمی بل پیش کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب عمران حکومت میں آرمی چیف کو تین سال کی توسیع دینی پڑی۔ پاکستانی عوام کو عمران خان کا خوشی اور جذبات سے بھرپور چمکتا دمکتا چہرہ یاد ہو گا جب دھرنے کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور ان کے کزن علامہ طاہر القادری کو ملاقات کا شرف بخشا تھا۔ بالکل اسی جوش اور جذبے میں انہوں نے آرمی چیف کو توسیع دینے کا خود ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

قانونی ماہرین نے وزیر اعظم کو بتایا کہ جناب یہ تو صدر مملکت کا کام ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے صدر پاکستان کو درخواست بھیج دی۔ مگر وہاں بھی انہوں نے تاریخ میں گڑبڑ کر دی غرض انہوں نے ایک آسان سا کام اپنی نااہلی کی وجہ سے خراب کر دیا جس کی وجہ سے آرمی چیف کی توسیع کو چیلنج کر دیا گیا اس کے بعد سپرئم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کا واضح اور شفاف قانون لے کر آئیں تا کہ ماضی میں دوبارہ اس قسم کی الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پارلیمنٹ میں بل پیش کیا گیا جس کو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔ ایک طرف اپوزیشن وزیر اعظم کو سلیکٹیڈ کہہ رہی تھی۔ دوسری طرف اسی سلیکٹیڈ وزیر اعظم کے زیر سایہ جنرل باجوہ کو تین سال کی توسیع بھی دینا پڑی۔

حکومت نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل 2020 میں آرمی چیف کی تقرری، دوبارہ تقرری اور توسیع کی ایک نئی شق ڈالی گئی، جس کے مطابق آرمی چیف کی تقرری تین سال ہو گی جبکہ توسیع کی مدت کے بارے میں بتانا لازمی ہو گا کہ توسیع ایک سال، دو سال یا زیادہ سے زیادہ تین سال میں سے کتنی دی جا رہی ہے، جبکہ صدر کو یہاں ایک اختیار دیا گیا ہے ک وہ پوچھ سکتے ہے کہ توسیع یاتقرری یا دوبارہ تقرری کیوں دی جا رہی ہے۔ جواب میں وزیر اعظم کو لکھنا پڑے گا کہ آرمی چیف کو قومی مفاد کی خاطر توسیع کی ضرورت ہے اس کے بعد وہ وجوہات بھی بتانے کے مجاز ہوں گے۔

پہلے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کو بھی وزیر اعظم تعینات کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن موجودہ آرمی ایکٹ کے بل میں چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف وزیر اعظم ہی لگائیں گے جبکہ ان کی تقرری، دوبارہ تقرری اور توسیع پر صدر کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اس بارے میں وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھ سکتے ہیں اورمطمئن نہ ہونے پر انکار بھی کر سکتے ہیں۔ آرمی ایکٹ کے پیش کیے جانے والے موجودہ بل میں یہ ایک نہایت اہم اور دلچسپ پیش رفت ہے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر تو صدر اور وزیر اعظم دونوں پی ٹی آئی کے ہیں تو اس صورت میں صدر اور وزیر اعظم کے ان اختیارات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر اگر ایسی صورتحال ہوتی ہے کہ صدر پی ٹی آئی کا اور وزیر اعظم ن لیگ یا پیپلز پارٹی کا بن جاتا ہے اور وہ اپنی پسند کے اعلی عہدے دار لانا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں پی ٹی آئی کے صدر اپنے اختیار کے مطابق ان کی بات ماننے سے انکار کر سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صدر ایک پارٹی کا ہو اور وزیر اعظم دوسری پارٹی کا ہو تو آرمی چیف اور صدر ایک پیج پر آ سکتے ہیں جس سے سیاسی ماحول انتشار کا شکار ہو سکتے ہیں۔

آئین میں جب تک 58 / 2 B لاگو رہی، صدر کے اختیارات کو چار چاند لگے رہے اور صدر سے منتخب وزراء اعظم ڈرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں صدر آصف علی زرداری کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے 58 / 2 Bکی شق کو ختم کر کے صدارتی اختیارات کو بالکل ختم کر کے صدر کو ایک رسمی عہدے تک محدود کر دیا۔ لیکن اب آرمی ایکٹ کے موجودہ بل کے بعد صدر مملکت کو اختیارات واپس ملنے کی طرف ایک قدم بڑھایا گیا ہے۔ اختیارات کے یہ ”اقدام“ کہیں 58 / 2 B کے نئے جنم کا اشارہ تو نہیں اگر ایسا ہے تو جو لوگ اس بات کا شور مچا رہے ہیں کہ حالات صدد راج کی طرف جا رہے ہیں کیا ان کا اندیشہ کہیں درست ثابت تو نہیں ہونے جا رہا؟

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاکستان کی بری فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلقہ قانون سازی کی حمایت نے عوامی حلقوں میں یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی جیسی پارٹیاں اپنے سیاسی بیانیے سے ہٹ کر توسیع کی تائید کرنے پر کیوں مجبور ہوئیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی لیگی ارکان نے ان تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سخت سوالات اٹھائے۔

پوچھا گیا کہ دوسال ہم ووٹ کی عزت کا نعرہ لگاتے رہے ہیں اب ہم عوام کو کیا جواب دیں گے؟ ڈاکٹر نثار چیمہ نے کہا خواجہ صاحب آپ کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کے حکم پر بل کی حمایت کر رہے ہیں ہمیں واضح طور پر بتایا جائے کہ بڑے میاں یا چھوٹے میاں؟ ۔ میاں جاوید لطیف پارلیمانی پارٹی میں بہت جذباتی نظر آئے، انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں بھی (ن) لیگ کے کارکنوں کو مایوس کیا گیا اور اب بھی ایسا کیا جا رہا ہے، اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی۔ قیصر شیخ نے کہا کہ غیر مشروط حمایت کی کوئی وجہ تو ہمیں بتائی جائے۔ خواجہ محمد آصف نے اعتراضات کاجواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ بل کی حمایت کا فیصلہ میاں نواز شریف کی ہدایت پر کیا ہے۔

مانا کہ ملکی صورتحال اور آرمی ایکٹ جیسے حساس ایشو پر غیر مشروط حمایت کا فیصلہ ایک طرح سے درست اقدام ہے مگر اعتراضات اٹھانے والے بھی قیادت سے تلخ و شیریں سوالا ت پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہر طرف یہی کہا اور پوچھا جا رہا ہے کہ کیا نواز شریف کے ساتھ ان کا مزاحمتی بیانیہ بھی چلا گیا؟ اسے ن لیگ کی اقتدار پرستی اور سیاسی چال سمجھیں یا مجبوری اور مفاد پرستی سے تعبیرکریں۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیاں اپنے اصولوں پر کہاں چلتی ہیں؟

سب جماعتیں اقتدار پرست ہیں۔ نون لیگ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم کی ’مکمل اور غیر مشروط‘ حمایت کا فیصلہ درحقیقت شہباز شریف کے بیانیے کی جیت ہے۔ شہباز شریف نے پہلے ہی بتایا تھا کہ ہماری پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ کیا ہم مان لیں کہ اس وقت ایسی جمہوریت ہے جس میں اختلافی آواز نکل ہی نہیں رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے ساتھ مصلحتیں اور مجبوریاں لگا دی ہیں۔ کیا دھائیوں سے مفاد کی پٹری پر چلنے والی سیاسی پارٹیاں عوام کی آنکھوں میں امید کا دھواں مارتی رہیں گی اور اپنا اپنا الو سیدھا کر کے پاکستان کے مفادات کا سودا کرتی رہیں گی۔

کچھ ن لیگی رہنماؤں کا خیال ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو قانون بنا نے کے بعد سازشوں کے دروازے کھل جائیں اور جب بھی کسی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کے تین سال پورے ہونے کو آئیں تو توسیع کے لئے جوڑ توڑ شروع ہو جائے۔ آرمی چیف کی تقرری کو سنیارٹی سے مشروط کر دیا ہی بہتر رہے گا۔ ترمیمی بل کے حامی ن لیگی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس بل کی حمایت کے نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے، اور!

آرمی ایکٹ کا بل پاس ہونے پر کسی بھی سیاسی پارٹی کے ورکریا رہنما اگریہ سمجھ رہے ہیں کہ اس میں نواز شریف کے بیانئے کی ہار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ڈکٹیٹر اور حاضر سروس آرمی چیف میں فرق نہیں سمجھتے۔ مانا کہ پاکستان کا سب سے زیادہ روشن قومی اسمبلی کا ہال لاعلمی اور نا اہلی کے اندھیرے میں عوام کے بجائے اپنی بقا کی جنگ لڑ ر ہے ہیں۔ 72 سال بعد آرمی چیف کی توسیع اور آرمی ایکٹ کا ترمیمی بل حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت سے طے پایا کیا یہ کم کامیابی ہے اور کیایہ نواز شریف کے بیانئے کی جیت نہیں۔

مسلم لیگ ن کے کچھ دل برداشتہ کارکنان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کا ٹایٹنک آرمی ایکٹ کے آئیس برگ سے ٹکرا چکا ہے اب دیکھیں اس کے کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں آنے والے دنوں میں اس بل کے نتائج سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ہمارے لئے اب تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں فرق ختم ہو چکا ہے۔ یہ موقف جذبات سے لبریز ضرور ہے مگر مائزہ حمید پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب غلطی سے تحریک انصاف کے پارٹی اجلاس میں چلی گئیں تو تحریک انصاف کی رکن شاندانہ گلزار نے ان سے وہی کہا جو ناراض ن لیگی ورکرز کہہ رہے ہیں کہ ”آپ اسی میٹنگ میں ہی آ جائیں ایک ہی بات ہے“۔

پاکستان میں دیمک زدہ بساکھیوں پر کھڑی جمہوریت کی دکان چمکانے والو! اپنے پسندیدہ سیاسی رہنماؤں کو صرف سیاسی قائد مانو، اپنے ضمیر کی مسجد کا امام نہ بناؤ۔ ان سے تبدیلی کی اتنی امیدیں نہ لگاؤ کیونکہ مہاتیر اور طیب اردگان کو آئیڈیل رہنما ماننے والے وقت آنے پر اپنی کمزوریوں کو مجبوریوں اور دوسروں کی غلطیوں کا نام دے کر خود صاف بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments