داعش کے پاکستانی جنگجوؤں کے اہل خانے کی پاکستان واپسی


داعش کے جنگجوؤں کے اہل خانہ

افغان صدر اشرف غنی نے نومبر 2019 میں جلال آباد میں یہ اعلان کیا تھا کہ جنگجوؤں کے خاندانوں کو قبائلی عمائدین کے ذریعے اُن کے پاکستانی لواحقین کے حوالے کیا جائے گا

افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں جمعرات کو داعش کے اُن جنگجوؤں کے اہلِ خانہ کو اُن کے پاکستانی رشتے داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے جنہوں نے اسلحہ پھینک کر اپنے آپ کو افغان حکومت کے حوالے کیا تھا۔

افغان حکام کے مطابق پہلے مرحلے میں 50 خواتین اور 76 بچے اُن کے پاکستانی رشتے داروں کے حوالے کیے جائیں گے۔

افغان صدر اشرف غنی نے نومبر 2019 میں جلال آباد میں یہ اعلان کیا تھا کہ جنگجوؤں کے خاندانوں کو قبائلی عمائدین کے ذریعے اُن کے پاکستانی رشتے داروں کے حوالے کیا جائے گا۔ نومبر 2019 میں افغان حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش کے 1300 سے زیادہ جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنے آپ کو افغان فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔

افغان حکام کے مطابق ان خاندانوں میں وادی تیرہ، ضلع اورکزئی اور باجوڑ سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے شامل ہیں جنہیں ان علاقوں سے آئے ہوئے اپنے خاندانوں کے سربراہوں کے حوالے کیا جائے گا۔

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی وادیِ تیرہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ جان محمد جلال آباد میں اُس تقریب میں شریک تھے جہاں ان خاندانوں کے دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔ اُنہوں نے جلال آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار ذبیح اللہ رحیم زئی کو بتایا کہ وہ تین خواتین اور چار بچوں کو لینے آئے ہیں جو پانچ سال قبل افغانستان آئے تھے۔

 

داعش کے جنگجوؤں کے اہل خانہ

پاکستان کے سابق قبائلی علاقوں کے بیشتر شدت پسند افغانستان میں داعش کے آنے کے بعد اُن کے ساتھ منسلک ہو گئے تھے۔

’ان میں میرے دو بیٹوں کی بیویاں اور ایک بھانجی ہیں اور چار بچے ہیں۔ جب افغان صدر نے خاندانوں کو حوالے کرنے کا اعلان کیا تو میں یہاں آ گیا۔ مجھے یہاں کافی دن ہو گئے ہیں، بس اب یہی درخواست ہے کہ ہمیں اپنے بچے اور خواتین جلد حوالے کریں تا کہ ہم واپس چلے جائیں۔‘

اس تقریب میں موجود ایک بیوہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اُس بیٹے کے ساتھ افغانستان آئی تھیں جنہوں نے اب اپنے آپ کو افغان حکومت کے حوالے کیا ہے۔

’میرا خاوند بہت پہلے وفات پا چکا ہے۔ میں یہاں بیٹے کے ساتھ آئی تھی‘۔

افغان حکام کے مطابق پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں سے داعش کے ہزاروں جنگجو افغانستان آئے تھے، جو بعد میں اپنے بیوی بچے بھی ساتھ لے آئے۔ یہ لوگ ننگرہار کے اُن علاقوں میں رہ رہے تھے جن پر داعش کا کنٹرول تھا۔

جلال آباد کے ایک قبائلی سربراہ ملک عثمان نے جرگے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جن خواتین اور بچوں کے لواحقین اُنھیں لینے آئیں گے صرف اُن ہی کو خواتین اور بچے حوالے کئے جائیں گے۔

’یہ افغانوں کی روایت ہے۔ یہ لوگ کسی غلط فہمی کی وجہ سے افغانستان آ گئے تھے۔ افغان حکومت، افغان عوام اور علماء ان کی خواتین کو باعزت طریقے سے اُن کے لواحقین کے حوالے کر رہے ہیں۔‘

داعش کے جنگجوؤں کے اہل خانہ

اگست 2016 میں افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکولسن نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش کے ستر فیصد جنگجو پاکستانی ہیں۔ ان کے مطابق یہ جنگجو پہلے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تھے لیکن قبائلی علاقوں میں ہونے والے فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘ آپریشن کی وجہ سے یہ جنگجو افغانستان چلے گئے اور وہاں اُنھوں نے خود کو دولتِ اسلامیہ سے منسلک کر لیا۔

پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں کے بیشتر شدت پسند افغانستان میں داعش کے آنے کے بعد اُن کے ساتھ منسلک ہوگئے تھے، جنہوں نے ننگرہار کے ضلع اچین میں اپنے ٹھکانے بنا لیے تھے۔ اب جب داعش کے یہ جنگجو پہلے کی طرح زیادہ علاقوں پر قابض نہیں رہے، سینکڑوں اسلحہ پھینک کر اپنے آپ کو افغان حکام کے حوالے کررہے ہیں، جبکہ عینی شاہدین کے مطابق کئی اب بھی ضلع اچین کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں مقیم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp