پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وفاقی آئین کا سرسری جائزہ


امریکی اور پاکستان کے آئین کا سرسری جائزہ لیا جائے تو دونوں ریاستوں میں وفاقی طرزِ حکومت نافذ ہے۔ البتہ پاکستان کی وفاقیت پارلیمانی اور امریکی وفاق صدارتی طرزِ حکومت پر مشتمل ہے۔ امریکہ میں وفاقی نظام سے ریاست میں استحکام اور ترقی و خوش حالی آئی جب کہ پاکستان ابہام پسندی کی وجہ سے گزشتہ ستر 70 سالوں سے بحرانی کیفیت اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان وفاقی مملکت ہونے کے باوجود داخلی مسائل، مشکلات اور تضادات پر قابو پانے میں ناکام رہا؟ اس بنیادی سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکی آئین اور پاکستانی آئین کا تقابلی جائزہ لیں۔

دنیا میں زیادہ تر ملکوں میں حکومت کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ وحدانی اور وفاقی نظامِ حکومت کہلاتے ہیں۔ وحدانی طرزِ حکومت میں اختیارات مرکز کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ جب کہ وفاقی طرزِ حکومت میں اختیارات مرکز اور وحدتوں میں اس طرح تقسیم ہوتے ہیں کہ وحدتیں داخلی خودمختاری کے ذریعے حکومتی معاملات پر عمل پیرا رہتی ہیں۔ کثیرالقومی، کثیر السانی اور کثیرالثقافتی ریاستوں میں خارجی و داخلی مسائل، مشکلات اور تضادات کے حل کے لیے وفاقی نظامِ حکومت بہترین آلہ کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیادی اور ضروری شرط ہے کہ مسلمہ وفاقی عالمی مفہوم کو سامنے رکھ کر ریاستی آئین مرتب ہو جس پر من و عن عمل کیا جائے۔

متحدہ ریاست ہائے امریکہ کا آئین پہلا جامع اور مکمل تحریری وفاقی آئین ہے۔ جسے 17 ستمبر 1787 میں فلیڈلفیا میں تیرہ امریکی ریاستوں کے وفود نے منعقدہ تاریخی آئینی کنونشن میں باقاعدہ منظور کیا تھا۔ یہ آئین سات آرٹیکلوں پر مشتمل ہے۔ جس میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات، مرکز اور ریاستوں کے تعلقات، آئین میں ترمیم اور توثیق کا طریقہ کار درج ہے۔ امریکی آئین میں دسویں ترمیم کے ذریعے عرضداشت حقوق یا حقوق کا بل شامل کیا گیا ہے۔ یہ آئین اٹھارویں صدی کے جدیدیت اور ترقی پسند دانشوروں جن کا تعلق فرانس امریکہ اور برطانیہ سے تھا، کے خیالات پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر روسو، مانٹسکو اور جان لاک کے نظریات اس آئین کی بنیاد ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کا آئین 1973 میں اس وقت بنا جب ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہوگیا تھا اور ملک میں 1956 کے آئین، 1962 کے آئین اور مارشلاؤں کے منفی اثرات سے چاروں طرف بے چینی اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ 1973 کے آئین کی تشکیل میں حفیظ پیرزادہ کے ساتھ میر غوث بخش بزنجو نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ قبل ازیں ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان کو وفاقی اکائی کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا تھا۔ 1973 میں مرکزی حکومت نے دس سال بعد کنکرنٹ لسٹ کو ختم کر کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن آمریت کی وجہ یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ کرنا انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ اس آئین کو اس وقت اسمبلی میں موجود بلوچستان کے نمائندوں نے تحفظات کے باوجود تسلیم کیا اور اس پر دستخط کیے تھے۔ لیکن جن رہنماؤں نے دستخط نہیں کیے تھے ان میں نواب خیر بخش مری، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور محترمہ جینیفر موسیٰ قاضی شامل ہیں۔ اس وقت ان کا مطالبہ تھا کہ قومی وحدتوں کو زیادہ اختیارات منتقل کیے جائیں۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ نواب خیر بخش مری کا صوبائی خودمختاری کا یہ مطالبہ علیحدگی کی تحریک میں تبدیل ہوگیا، جو آج بھی زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔ امریکی آئین کی نسبت پاکستان کا آئین زیادہ تفصیلی ہے۔ اس میں 280 آرٹیکل، 12 باب اور 6 شیڈول ہیں۔ آئین میں مقننہ، انتظامیہ عدلیہ اور انسانی حقوق کی بابت تفصیلات درج ہیں۔

مقننہ کے اختیارات

مقننہ کا کام قوانین بنانا یا اس میں ترمیم کرنا ہے یا پھر آئین میں موجود کسی قانون کو ختم کرنا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مقننہ دو ایوانوں ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ (کانگریس) پر مشتمل ہے۔ امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کے ممبران کا انتخاب دو سال کے لیے ہوتا ہے۔ ایوانِ نمائندگان کے اراکین کی تعداد 435 ہے۔ جو آبادی کے تناسب سے مقرر کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ ارکان کیلی فورنیا ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔

جن کی تعداد 53 ہے اور سب سے کم رکن الاسکا، کونکٹیکٹ، مونٹانہ، نارتھ ڈاکوٹا، ساؤتھ کیرولینا، ورمونٹ، وایومگ ریاستوں سے ہیں، جن کی تعداد صرف ایک ایک ہے۔ جب کہ امریکہ میں سینٹ کے اراکین کا انتخاب 6 سال کے لیے ہوتا ہے۔ اس میں وحدتوں (ریاستوں ) کے دو اراکین ہوتے ہیں۔ امریکی مقننہ، کانگریس کے پاس انتظامیہ کے اختیارات بھی ہیں۔ جب کہ صدر کی معاونت کے لیے جو ٹیم (کابینہ) تشکیل دی جاتی ہے، اس کی منظوری سینیٹ سے لینا لازمی ہے۔

اسی طرح وفاق میں اعلیٰ تعنیاتیاں مثلآ سپریم کورٹ کے ججوں، اعلیٰ فوجی افسر ان وغیرہ سینیٹ کی منظوری کے بغیر ناممکن ہیں۔ امریکہ میں سینیٹ کی منظوری کے بغیر عالمی معاہدات قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جو معاہدات سینیٹ نے مسترد کیے تو امریکی صدر کو مجبورآ اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

پاکستان کا آئین بھی امریکی آئین کی طرح دو ایوانوں ‌پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے ایوانِ بالا کو سینیٹ اور ایوانِ زیریں کو قومی اسمبلی کہتے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی طرح پاکستانی سینیٹ میں وحدتوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے۔ لیکن پاکستان کے سینیٹ کو وہ اختیارات حاصل نہیں جو امریکی آئین میں سینٹ کے پاس ہیں۔ سینٹ کے اراکین کا انتخاب 6 سال کے لیے ہوتا ہے۔ پاکستان میں سینیٹ کی نسبت قومی اسمبلی زیادہ طاقت ور ادارہ ہے۔

قومی اسمبلی کے اراکین 5 سال کے لیے براہِ راست منتخب ہوتے ہیں اور اس کے اراکین کی تعداد آبادی کے مطابق تقسیم کی گئی ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 342 ہے۔ جن میں پنجاب کے اراکین کی تعداد 174، سندھ 75، خیبر پختون خواہ 60 اور بلوچستان کے 20 ارکان ہیں جب کہ سینیٹ کی اسلام آباد کے لیے الگ سیٹیں مخصوص کی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی میں پنجاب کی سیٹیں تینوں صوبوں سے زیادہ ہیں۔ اس لیے قومی اسمبلی میں پنجاب کا اثر غالب ہے۔ جس سے اختیارات کا پلڑا پنجاب کے حق میں ہے۔

انتظامیہ کے اختیارات

کاروبارِ مملکت کو چلانے کے لیے ریاستوں میں حکومتی مشینری ہوتی ہے۔ جمہوری ریاستوں میں حکومت کا طریقہ پارلیمانی یا پھر صدارتی ہوتا ہے۔ امریکی آئین میں صدر بہ یک وقت ریاست اور انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب عوامی ووٹ اور الیکٹورل کالج کے ذریعے چار سال کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دو آئینی مدتوں کی حد مقرر ہے۔ صدر کو کانگریس سے پاس شدہ بل کو ویٹو کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ لیکن ایسی صورت میں اگر مذکورہ بل کانگریس سے دوبارہ دو تہائی اکثریت سے منظور ہو جائے تو پھر وہ نافذ العمل تصور ہوتا ہے۔ آئین میں صدر کے اختیارات بعض امور میں سینیٹ کی منظوری پر منحصر ہوتے ہیں۔ مثلآ بین الاقوامی معاہدے اور وفاقی تعنیاتیاں وغیرہ۔

پاکستان میں امریکی صدارتی نظام کے برعکس پارلیمانی نظامِ حکومت ہے۔ حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے اکثریتی اراکین کرتے ہیں۔ وزیراعظم اپنی معاونت کے لیے کابینہ تشکیل دیتا ہے۔ جب کہ ریاست کا سربراہ بالواسطہ طور پر منتخب (صدر) ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب چاروں صوبوں کی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ کرتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے صدر کے پاس زیادہ اختیارات تھے۔ صدر اس وقت وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو برطرف کر سکتا تھا۔ پاکستان میں انتظامیہ یعنی حکومت کا اثر دیگر اداروں (محکموں ) میں زیادہ ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ انتظامیہ پر پارلیمانی کمیٹیوں کے ذریعے نگرانی کر سکتی ہے۔ لیکن عملآ ایسا مشکل ہے۔ کیوں کہ پاکستان آئین رکھنے کے باوجود آئینی حکمرانی کی مضبوط روایات سے محروم ہے۔

عدلیہ کے اختیارات

عدلیہ کام کام عدل و انصاف فراہم کرنا ہے۔ وفاقی طرزِ حکومت میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکی آئین میں نظامِ عدل کا سربراہ ادارہ سپریم کورٹ ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرریاں صدر سینیٹ کی منظوری سے کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کو عدالتی جائزہ کے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر مقننہ اور انتظامیہ کے اقدامات اور قانون سازی میں تصادم ہو تو ان کو غیرآئینی قرار دے سکتی ہے۔ اسی طرح مرکز اور وحدتوں اور وحدتوں کے مابین کسی مسئلہ پر اختلاف پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔

پاکستان میں بھی امریکہ کی طرح آئین میں سپریم کورٹ عدلیہ کا سربراہ ادارہ ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ججوں کی تعیناتی کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے۔ جس کی پارلیمانی کمیٹی کے بعد حتمی منظوری صدر دیتا ہے۔ یہاں پارلیمانی کمیٹی کا کردار ربڑ اسٹامپ جیسا ہے۔ پاکستان میں سپریم کورٹ کو وسیع اختیارات حاصل نہیں۔ عدلیہ کی فعالیت کا دارومدار جسٹس منیر احمد کے اختیار کردہ نظریہ ضرورت کے غلط فیصلے اور فلسفہ کی بنیاد پر ہے۔ جس پر سے عوام، وفاقی وحدتوں اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد اور بھروسا تقریبا ختم ہو رہا ہے۔

یہاں جو بات ذہن نشین کرنے کے قابل ہے وہ یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین میں اداروں کے مابین اختیارات کے تجاوز کی روک تھام اور مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو آئینی دائرہ میں رہ کر کام کرنے کے لیے مانٹسکو کے نظریہ تقسیم اختیارات اور چیک اینڈ بیلنس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ امریکی عوام سیاسی پختگی اور بلوغت کے سبب اس نظام اور فلسفہ سے مستفید ہو کر کامیابی سے عمل کر رہے ہیں۔

جب کہ پاکستان میں جناح کی وفات کے بعد مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرتے رہے۔ پاکستان میں امریکہ کے برعکس مسلمہ وفاقی بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے داخلی مسائل، مشکلات اور تضادات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

قومی یکجہتی اور ریاستی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اہم امور میں وفاقی اکائیوں کو فیصلہ سازی میں مؤثر اور برابر کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ حکومتی یا انتظامی سربراہ کے انتخابات میں وفاقی وحدتوں کا متناسب عمل دخل نہیں ہے اور مالیاتی امور بجٹ بنانے اور منظور کرنے میں اقوام یا وحدتوں کے نمائندہ ادارہ سینیٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ سینیٹ کا بجٹ میں کردار برائے نام ہے۔ اسی طرح خارجی امور و معاہدے اور کابینہ کا چناؤ اور وفاق میں اہم و اعلیٰ تعیناتیوں میں بھی ایوانِ بالا سینیٹ کا خاص کردار نہیں ہے۔ جب کہ یہ تمام اختیارات قومی اسمبلی کو حاصل ہیں۔ جس کے نتیجے میں اکثریت رکھنے والے صوبے پنجاب کا اثر رسوخ سب سے زیادہ اور غاصبانہ حد تک ہے۔ جو وفاقیت کے بنیادی فلسفہ اور اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مثالی وفاقی آئین کے لیے کم ازکم تقیسمِ اختیارات میں امریکی وفاقی آئین کے ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقی وفاقی روح کے مطابق وفاقی ریاستی تشکیل کے لیے آئینی ترامیم کے ذریعے بہتر توازن قائم کیا جائے جو عوام اور اقوام دونوں کو آسودہ و مطمئن بنا سکے۔ مسلمہ عالمی سیاسی اصولوں کے ذریعے داخلی مسائل کو حل کیا جائے۔ کیوں کہ کثیرالقومی ریاستوں میں وفاقی نظام ہی مسائل کے حل کے لیے بہترین آلہ ہوتا ہے۔ جس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

وگرنہ جس طرح 73 سالوں میں وفاق کو چلایا جا رہا ہے، اس سے مرکز اور صوبوں میں محاذ آرائی اور اختلافات میں مزید اضافہ ہوگا جو کہ ماضی کی طرح خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ جس کی ذمہ داری مکمل طور پر مرکز میں موجود مقتدر قوتوں پر عائد ہو گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments