کیا لکھوں کیا نہ لکھوں


ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کو دہشت گرد کہا، پاکستان میں سوشل میڈیا پر شیعہ سنی مخاصمہ آرائی شروع ہو گئی۔ میرے ہی ایک عزیز نے سوال اٹھایا کہ کیا انہیں صاحب نے صدام کی موت پر سہ روزہ جشن نہیں منایا تھا؟ بھئی امریکہ پہلے کام لیتا ہے، تھوڑا سا سر اٹھاؤ تو انتقام لے لیتا ہے ویسے ہی جیسے ہمارے ملک جیسے ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے شروع میں سر اٹھاتے غنڈے کو نمبری بدمعاش بننے میں ‌ مدد دیتے ہیں، جب وہ قابو سے باہر ہونے لگتا ہے تو اسے ”انکاؤنٹر“ میں مار دیتے ہیں یوں اس انگریزی لفظ کے معانی ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

عزیز کے اس سوال پر مجھے صوبہ مازندران کے ایک گاؤں زیراب کا علی بہت یاد آیا۔ ویسے تو مجھے وہ اسلامی انقلاب مخالف انقلابی نوجوان بھی یاد آیا تھا جسے میں نے بس میں بیٹھے کہیں جاتے ہوئے بس کی کھڑکی سے تب دیکھا تھا جب وہ باقاعدہ سینہ تانے ایک ہجوم کے جلو میں آگے آگے پرفخر انداز میں، تھوڑی ہی دور کرین سے بنی سولی چڑھنے جا رہا، اس سولی کو بھی میں نے بس کی کھڑکی سے ہی دیکھا تھا کیونکہ بس ”اک ڈھب سے مقتل جاتے ہوئے شان سلامت رکھنے والے“ کو پیچھے چھوڑ گئی تھی مگر وہ تو اپنے قصد اور اپنی رضامندی سے یہ تمغہ سجانے نکلا تھا لیکن علی تو ایک سادہ دیہاتی خاموش طبع نوجوان تھا جسے ملک کے دفاع پر قربان کیے جانے کی غرض سے لام بندی کے تحت ”ارتشی“ یعنی فوجی بھرتی کیا گیا تھا۔ دو تین ہفتے کی تربیت کے بعد اسے اہواز کے محاذ پر بھیج دیا تھا جہاں سے اس کا جسد خاکی ”علی شہید“ کی صورت گاؤں لوٹا تھا ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے، کم از کم میری موقتی یاد میں۔

ایسے لاکھوں علی صدام کی امریکہ دوستی کے تحت شیعہ دشمنی کرتے ہوئے ایران کو کمزور کیے جانے کی نذر ہوئے تھے۔ ایران کو اپنے جوان بلکہ نوجوان اس لیے جنگ میں جھونکنے پڑے تھے تاکہ باقاعدہ تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوجیوں کو بہتر محاذ آرائی کی خاطر بچا سکے۔ تو یوں صدام کی موت پر ارتشیوں کے جشن منائے جانے کا جواز موجود تھا۔ پھر ایرانی کون سا تصوف کو مانتے ہیں جو ”دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا“ کی تصویر بنتے۔

ویسے بھی ہم ایرانیوں کو صرف شیعہ سمججھتے ہیں جبکہ ایرانی اصل میں ایرانی ہیں۔ ان کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ان کی تاریخ پڑھنی پڑے گی مگر ہم تو بس مخاصمت کرتے ہیں یہ جانے بنا کہ یہودیوں کے مذہبی تہوار کون کون سے ہیں۔ ان کے قدامت پرست مرد سیاہ لباس کیوں زیب تن کیے رکھتے ہیں۔ بالوں کی لٹیں کیوں رکھتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ

مجھے ایران امریکہ ممکنہ جنگ کے خدشے، خوف یا خواہش سے متعلق بھی نہیں لکھنا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ایسی جنگ فی الحال ہوگی نہیں ہاں یہ ضرور کہنا ہے کہ لکھ رکھو اگر خدانخواستہ ایسی کوئی جنگ ہوئی تو ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمیں استعمال ہوگی ہی ہوگی۔ کسی نے جنگ اور پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی کوئی بات کی نہیں کہ بیانات آنا شروع ہو گئے کہ ہم پاکستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ بھئی کچھ سمجھا کرو اگر دنیا میں ساری سازشیں امریکہ ہی کرتا ہے تو پاکستان اور ایران کو عراق اور شام بنانے کا اس سے بہترین موقع اور بھلا کب ہوگا۔

لیکن کسی ملک کی پارلیمان نے پہلی بار بحث کیے بن اکثریت سے متفقہ طور پر اگر کسی کو اپنی فوج کا سربراہ چنا ہے تو وہ پاکستان ہے اس لیے اللہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان آئندہ تین برسوں ‌ میں کسی بڑے عسکری امتحان سے گزرے۔ معیشتی امتحان تو ہمارے چل ہی رہے ہیں، جن میں ہم بار بار فیل ہو رہے ہیں۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں کے تعین کو ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت گروی رکھ دیا ہے۔ ہیٹر گیزر استعمال کرنے کی سکت سے عاری ہونے کے سبب میرے جیسا ”سرد ترین ملک کا شہری“ بھی سردی کا گزند سہتے ہوئے سی سی سی کر رہا ہے۔

بدبخت ملکوں کی تقدیر میں راحت پانا تو مالک دوجہاں بھی تحریر کرنے سے گریز کرتا ہے چنانچہ مجھ ایسا بندہ پر تقصیر کسی بارے میں کیا لکھے اور اگر لکھے تو بھلا کیا لکھے؟ یہی نا کہ بے بس ہیں، ناتواں ہیں، بے آسرا ہیں، وسائل سے عاری ہیں، ہمت سے گریزاں ہیں اور شجاعت کی تو بات ہی کیا کرنی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments