امریکہ اور ایران کی جنگ ہوئی تو سعودی عرب کا کیا ہوگا


ٹرمپ اور سعودی ولی عہد

سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہے

ایران اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشیدگی گذشتہ ہفتے مزید بڑھ گئی۔

امریکہ نے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو فضائی حملے میں ہلاک کر دیا اور جوابی کارروائی میں ایران نے منگل کو عراق میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل سے حملہ کیا، لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا۔

دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا بحران نظر آ رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر جنگ کی صورتحال برقرار رہی تو مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک اس کی لپیٹ میں آجائیں گے، جس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔

ایران نے امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ جنرل سلیمانی کی موت کا بدلہ لے گا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان اس کشیدگی سے سعودی عرب کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے حملے یا جنگ جیسی صورتحال پیدا کرتا ہے تو یہ سعودی عرب کا سب سے بڑا نقصان ہوگا کیوں کہ ایران یقینی طور پر سعودی عرب کو نشانہ بنائے گا جس کے ساتھ امریکہ کے مفادات وابستہ ہیں۔

اگرچہ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جنگ جیسے حالات ضرور نظر آ رہے ہیں لیکن کوئی بھی ملک کھلی جنگ نہیں چاہتا کیونکہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تباہی پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دے گی۔

مشرق وسطیٰ میں بڑی تباہی کا امکان ہے

سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفیر تلمیز احمد کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں جو تناؤ بڑھتا جارہا ہے وہ آہستہ آہستہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

’اگر یہ کشیدگی اسی طرح جاری رہی تو ظاہر ہے کہ ایران کا حملہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تیل کے ٹھکانوں پر ہوگا اور پھر جوابی کارروائی ہوگی، پھر یہ محدود جنگ نہیں ہوگی۔ جنگ پورے خطے میں پھیلے گی اور بڑے پیمانے پر تباہی کا اندیشہ ہوگا۔‘

ایران

ماہرین کے مطابق اسرائیل نہیں چاہتا کے ایران خطے میں بڑی طاقت بنے

تلمیز احمد کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں لیکن ان کے اقدامات سے تناؤ اور تنازعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اس کے برعکس سفارتی طریقے کبھی نہیں اپنائے گئے۔ اگر امریکہ کو کبھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ براہ راست حملہ کرنے کے لیے فوج کا استعمال کرتا ہے اور متاثرہ ملک تہس نہس ہوجاتا ہے۔ افغانستان، عراق اور لیبیا میں انہوں نے یہی کیا تھا۔ ان ممالک میں ہزاروں افراد مارے گئے‘۔

تلمیز احمد کا خیال ہے کہ ’مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ میں تباہی کی واحد وجہ امریکہ ہے۔ امریکہ ایسی ہی جنگیں شروع کرتا ہے۔ نائن الیون حملوں میں عراق کا کوئی کردار نہیں تھا، لیکن امریکہ نے حملہ کر کے ہزاروں افراد کو ہلاک کر دیا‘۔

کیا ایران تنہا پڑ جائے گا؟

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اس میں کیا ایران تنہا کھڑا ہوگا یا اگر جنگ کے حالات پیدا ہوئے تو مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک اس کی حمایت کریں گے؟

فائل فوٹو

ماضی میں ایران نے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں تعاون کیا تھا

اس سوال پر اسرائیل کے شہر تل ابیب میں رہنے والے سینئر صحافی ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ دو کیمپوں میں منقسم ہے۔

’ایک کیمپ ایران کے ساتھ ہے اور دوسرا کیمپ امریکہ کے ساتھ ہے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو عراق میں اس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ یمن کے کچھ حصوں تک عراق کی رسائی ہے۔ خاص کر حوثی معاشرے میں ان کی رسائی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’جنوبی لبنان کے اس حصے میں جہاں حزب اللہ ہے وہاں ایران کی گرفت مضبوط ہے۔ شام میں ابھی بھی بشار الاسد اقتدار میں ہیں تو اس کی وجہ ایران اور روس کی حمایت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اس کے علاوہ غزہ کا علاقہ خاص طور پر حماس ایران کی حمایت پر انحصار کرتی ہے۔ اگر ہم دوسرے ممالک کو دیکھیں تو ترکی کے ساتھ ایران کے تعلقات بہت اچھے ہیں، لیکن جنگ کی صورت میں یہ ایران کے ساتھ نہیں جائے گا۔ ترکی کے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کھٹے میٹھے رہے ہیں۔

’ترکی جنگ کے حق میں نہیں دکھائی دے رہا۔ مصر میں بھی ایک بڑی آبادی ہے جو وہاں کی حکومت کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ ایران کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں لیکن سنی مسلمان ایران کے ساتھ نہیں جائیں گے لیکن اس علاقے میں ایران کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا ہے۔ ایران کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔‘

ٹرمپ

ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ اقدام نے خطے میں کشیدگی میں اضافہ کیا ہے

تل ابیب میں رہنے والے سینئر صحافی ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ خطے کے باقی ممالک جیسے سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات، کویت ایران سے خوفزدہ ہیں۔

’وہ نہیں چاہتے کہ ایران اپنی جوہری مہم میں کامیاب ہو، لہذا وہ امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بات یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ان ممالک کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں، حالانکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے ہیں‘۔

وہ کہتے ہیں ’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو خود عمان جا چکے ہیں۔ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے یہ ایک پہل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ علاقہ دو کیمپوں میں منقسم ہے۔ لیکن اس علاقے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

کیا واقعی جنگ کے حالات پیدا ہو رہے ہیں؟

ہریندر مشرا کے مطابق ‘اس سے پہلے خلیجی جنگ کی وجہ یہ تھی کہ کویت پر عراق نے حملہ کیا تھا اور صدام حسین نے اس کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ایران ایسا کرے گا یہ تو واضح نہیں لیکن سعودی عرب پر جو حملے ہوئے اس کا ذمہ دار براہِ راست ایران کو ٹھہرایا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، حوثی باغیوں کے حملے کے پیچھے ایران کی حمایت بتائی گئی۔ اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے لیکن ایران کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ اگر اس نے بہت سے ممالک سے دشمنی مول لے لی تو اس کی معیشت مزید برباد ہو جائے گی۔‘

فائل فوٹو

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے عراق ، افغانستان اور لیبیا میں فوجی کارروائی کر کے ان ممالک کو تباہ کر دیا

ہریندر مشرا کے مطابق ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ملک کے اندر بغاوت کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ابھی ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ضرور ہے لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ لڑائی زیادہ دور نہیں جائے گی۔ کمزور معیشت بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ ایران ایک بڑی جنگ لڑنے کی حالت میں نہیں ہے۔‘

خیال کیا جارہا ہے کہ امریکہ اور ایران کے مابین چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے بعد اس معاملے کو دبا دیا جائے گا۔ تاہم، مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک جیسے سعودی عرب اور اسرائیل نے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ وہ حملہ نہ کرے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ایران کی طرف سے کوئی کارروائی کی گئی تو وہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور ایران کو شدید چوٹ پہنچائیں گے۔

ہریندر مشرا کا یہ بھی خیال ہے کہ ’اگر مشرق وسطیٰ میں کسی بھی طرح کی جنگی صورتحال پیدا ہوئی تو اس کا اثر پوری دنیا کو غیر مستحکم کرسکتا ہے۔ کیونکہ خطے میں تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ممالک ہیں، اور اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی اور اس کا عالمی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔‘

فائل فوٹو

اگر جنگ ہوتی ہے تو پوری دنیا اس سے متاثر ہوگی

ہریندر مشرا کا کہنا ہے ’تیل کے علاوہ انڈیا کو مشرق وسطیٰ سے جو مسئلہ درپیش ہوگا وہ یہ کہ یہاں لاکھوں ہندوستانی آباد ہیں جنہیں خطے سے نکالنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ یہ لوگ نہ صرف یہاں کام کرتے ہیں بلکہ اربوں روپے انڈیا بھیجتے ہیں۔ وہ نقصان بھی ہوگا۔ یہ انڈیا کے لیے بھی ایک بڑی منڈی ہے۔ وہاں سے برآمد ہونے والی بہت سی چیزیں رک جائیں گی۔ ہندوستان کی تیل کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان سے انڈیا کو بہت مشکل ہو رہی ہے۔ انڈیا مسلسل یہ کوشش کر رہا ہے کہ ان پابندیوں کے سبب انڈیا کو ملنے والے تیل میں جو کمی آئی ہے اسے کیسے پورا کیا جائے۔‘

دنیا پر کیا اثر پڑے گا ؟

یہ واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ اس خطے میں امریکہ کی دلچسپی بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں اس کی ایک بڑی موجودگی ہے۔ وہ خطے میں چیزیں بیچتا ہے۔

سعودی عرب تقریباً ہر چیز کے لیے امریکہ پر منحصر ہے۔ ٹیکنالوجی کے علاوہ۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیار بھی فروخت کرتا ہے۔ اگر یہاں بدامنی پھیلتی ہے تو اس کے اتحادی ممالک کی معیشت کو نقصان پہنچے گا اور اس کا براہ راست اثر امریکہ کے کاروبار پر پڑے گا۔

فائل فوٹو

ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت نے ایک بار پھرخطے میں کشیدگی پیدا کر دی

ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ ’ایران کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو یورپ کے کسی بھی شہر تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ میزائل اسرائیل کے شہرتل ابیب تک پہنچ سکتے ہیں اور انھوں نے اس کا اعلان بھی کیا ہے۔ ایران کے پاس اتنے طاقتور ہتھیار ہیں کہ وہ اس خطے میں حملہ کرسکتے ہیں۔ جب ان میں یہاں حملہ کرنے کی طاقت ہے تو وہ مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی حملہ کرسکتے ہیں۔‘

ماہرین اور اسرائیلی فوجی حکام کا خیال ہے کہ ایران اس طرح کا حملہ کرسکتا ہے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطی میں بہت سے اڈے بنائے ہیں تاکہ ایسا حملہ ہونے کی صورت میں وہ اینٹی میزائل سسٹم کے ذریعے ان حملوں کو روک سکے۔

تلمیز احمد کا خیال ہے کہ مشرق وسطی میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس کے لیے اسرائیل زیادہ ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا ہے ‘اسرائیلی لابی چاہتی ہے کہ ایران کو خطے کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ختم کردیا جائے۔ وہ یہاں امن نہیں چاہتا بلکہ خود کو اس خطے کی بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے‘۔

تلمیز احمد کہتے ہیں ’امریکہ نے ایران کے ساتھ متعدد بار کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران نے بھی امریکہ کا ساتھ دینے کی کوشش کی ہے۔ 2001 کے حملے کے بعد ایران نے امریکہ کو انٹیلی جنس فراہم کی تھی جب اس نے طالبان پر حملہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ جب امریکہ عراق پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا تب بھی ایران امریکہ کے مابین بات چیت جاری تھی کیونکہ صدام حسین دونوں کو کھٹک رہے تھے۔ ایران نے اپنی طرف سے ان تعلقات کو بہتر رکھنے اور خطے میں استحکام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اسرائیل کو یہ پسند نہیں آیا اور صورتحال کو نارمل نہیں ہونے دیا‘۔

سعودی کو کتنا خطرہ ہے؟

فوٹو

ایران نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا عزم کیا تھا

کیا امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک جنگ کے لیے تیار ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کس قدر تباہی کا باعث ہوں گے؟

اس سوال پر سابق سفیر تلمیز احمد کہتے ہیں ‘مجھے نہیں لگتا کہ مغربی ایشیاء میں کوئی بھی ایسا ملک ہے جو کھلی جنگ چاہتا ہو۔ ایران، سعودی عرب اور اسرائیل ایسی جنگ کو پسند نہیں کریں گے، لیکن تشویش اس بات کی ہے کہ کہیں یہ حالات قابو سے باہر نہ ہو جائیں۔ ایران تنہا امریکہ سے نہیں لڑ سکتا لیکن یہ ایسی لڑائی نہیں ہوگی۔ یہ لڑائی ملیشیا کی ہوگی۔ ایران کے پاس ملیشیا کی طاقت ہے۔ اس میں حزب اللہ بھی شامل ہے۔ حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 50،000 راکٹ ہیں۔ اگر ملیشیا نے اس علاقے میں اپنی طاقت دکھانا شروع کردی تو پورا علاقہ اس جنگ میں ڈوب جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ ایران میں امریکہ سے لڑنے کی صلاحیت نہ ہو، لیکن وہ سعودی عرب کے تیل کے اڈے تباہ کرسکتا ہے، جس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ اس میں ہار جیت نہیں صرف تباہی ہوگی‘۔

یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر اس خطے میں جنگ کے حالات غالب آتے ہیں تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے، کیونکہ ایران کے لیے وہاں حملہ کرنا آسان ہے۔

ستمبر میں سعودی تیل کے اڈوں پر حملوں سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے۔ اس حملے کا الزام ایران پر لگایا گیا تھا۔ اس سے سعودی تیل کی پیداوار متاثر ہوئی تھی۔

اگرچہ ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کشیدگی برقرار رہے گی لیکن کوئی بھی ملک کھلی جنگ نہیں چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32491 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp