ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے


چند روز پہلے ایرانی جنرل کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت نے خطے کو ایک بار پھر سے عدم استحکام کا شکار کر دیا امریکہ اور ایران کی دشمنی کوئی نئی نہیں لیکن اس طرح ایک بڑی شخصیت کو نشانہ بنانے کی جرات کبھی امریکہ اور اس کے اتحادی خاص طور پر اسرائیل کی کبھی نہیں ہوئی،

عراق کی پارلیمنٹ کی جانب سے ایرانی جنرل کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کے بعد امریکی افواج کو اپنے ملک سے نکالنے کی قرارداد تو منظور ہو گئی لیکن ایسی حکومت جو پہلے ہی امریکی حکمرانوں کی مدد سے برسر اقتدار ہے وہ بھلا کیسے اس حکم نامے پر عمل درآمد کروا سکتی ہے

ایک طرف یہ حال ہے کہ ایک طاقتور ترین ملک کی طرف سے ایک مسلمان ملک کے بہادر سپاہی کو نشانہ بنایا گیا ہے تو دوسری طرف ہمسایہ ملک بھارت کشمیر کی غیور عوام کی تحریک آزادی کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر دم کوشاں ہے۔ کشمیری مسلمان ماؤں بہنوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جارہا۔ سو روز سے زائد کرفیو اور جنت نظیر وادی میں موت کے سائے بھی کشمیری عوام کو کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سے نہیں ہٹا سکے، لیکن کیا امہ مسلمہ نے ان کے لیے آواز بلند کی ، افسوس متحدہ عرب امارات نے کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والے بھارتی وزیراعظم کو اپنا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دے ڈالا، وہ بھی تب جب کشمیر میں انسانیت سلگ رہی تھی ، ہمسایہ ملک ہندوستان حیران ہے کہ اتنا مظالم کرنے کے بعد بھی کشمیری عوام کے اندر موت کا خوف کیوں پیدا نہیں کرسکے ، بے خوف کشمیری بھائی اپنے آپسی اتحاد کی طاقت سے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں، لیکن کب تک؟  اگر مسلم امہ متحد ہو کر ان کی مدد کو نا پہنچی تو کیا کشمیری عوام ان بڑے بڑے محلوں میں رہنے والے مسلم حکمرانوں کو معاف کر سکے گی؟ جواب ہے۔ ہر گز نہیں

فلسطین میں بھی مسلمانوں پر ظلم کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، چاہے اس میں نہتے فلسطینیوں پر گولا باری ہو یا پھر یروشلم اور دوسرے فلسطینی علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ایسا کیوں کہ یہ ہر طرف مسلمان ہی ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسا کیوں یہ کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر نشانہ جاتا ہے جبکہ دین اسلام کا تو دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔ دین اسلام میں تو ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل مانا جاتا ہے

تو جناب وجہ صرف اور صرف ایک ہے امت مسلمہ کو اتحاد کی ضرورت ہے ایسا اتحاد جس کا مقصد اپنے اپنے مفادات کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کے مفادات کا تحفظ اولیں ترجیح ہو ایسا اتحاد جس میں اگر ہم کوئی مسلم امہ کی نمائندگی کے لیے فوج بنائے تو اس میں صرف سنی منسلک سے تعلق رکھنے والے ممالک نہیں بلکہ سب مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ممالک شامل ہونا ضروری ہے

ایک ایسی فوج جو کہنے کو تو مسلم ممالک کی بقا کے لیے ہے لیکن ان کے اس کے اندر سے بھی آپسی اختلاف کی بو آتی ہو تو اس سے تمام مسلم ممالک تو ایک طرف رکن ممالک کا دفاع بھی نہیں ہو سکے گا ذاتی رنجش مٹا کر اور مسلم ممالک کو ایک دوسرے کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ کفار کسی مسلمان کے دوست کبھی نہیں ہوسکتے، جب مسلمانوں میں اتحاد تھا تو ایک لمبے عرصے تک دنیا کے بڑے حصے میں ڈنگے کی چوٹ پر اپنا پرچم لہرائے کر برسراقتدار تھے چاہے اس میں خلفائے راشدین کا دور حکومت ہو یا پھر برصغیر پاک وہند میں مغل بادشاہوں کی حکومت مسلمانوں کے اتحاد نے ان کو لازوال قربانیوں سے ہمیشہ نوازا ہے

مشرق وسطی کے ممالک میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لگائی آگ چیخ چیخ پر مسلم ممالک کو متحد ہونے کا کہہ رہی ہے ، مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت اتنی شدت سے آج سے پہلے کبھی نہیں پڑی کیونکہ اب بات ایران اور امریکہ کی نہیں بلکہ مسلم امہ کی بقا کی ہے۔ اتحاد ایسا ہو کہ ایک مسلم ملک بولے تو سارے اس کے پیچھے ہم آواز ہو جائے ، پھر چاہیے کشمیریوں پر بیلٹ گنز چلانے کا معاملہ ہو یا پھر ایران امریکہ تنازع، یا پھر بات ہو رہی ہو فسطینی عوام پر بے جا ظلم وستم کی یا بیت المقدس اسرائیلی تسلط سے نکالنے کی بات ہو مسلم ممالک کو اپنی بقا کے لیے ایک ہونا پڑے گا، ایک بار اگر مسلم امہ یہ اتحاد قائم کرلے تو مسلم ملک کے جنرل تو دور کی بات ایک معمولی سپاہی کو نشانہ بناتے وقت دشمن ہزار بار سوچے گا

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اس اتحاد کو قائم کو قائم رکھنے اور آپس میں تفرفے بازی میں نہ پڑنے کا حکم دیتا ہے ، لیکن شاید ہم نے قرآن کی دوسری تعلیمات کے ساتھ ساتھ اس حکم کو بھو لا دیا ہے یہ ہی سب سے بڑی وجہ یہ مسلم امہ آج زوال کا شکار ہے

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو ، (القرآن)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments