ایران امریکہ کشیدگی: مشرقی وسطیٰ کے بحران میں کون جیتا، کون ہارا؟


امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے میں ایران کے اعلیٰ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور ایران کی طرف سے انتقامی کارروائی میں میزائل حملے نے تنازع کے دور رس اثرات کا خدشہ بڑھا دیا ہے۔

اس بحران میں کون ہارتا ہے یا اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ امریکہ اور ایران آگے کیا کریں گے۔

تو یہ مرحلہ کون جیتا، کون ہارا؟

ایران

اتنی بااثر اور طاقتور فوجی شخصیت کے کھونے کے باوجود، ایران کو جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا ایک قلیل مدتی فائدہ ہوسکتا ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کی موت اور اس کے بعد ہونے والے بڑے پیمانے پر تدفین کے اجتماعات کے نتیجے میں تہران کو نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے احتجاج پر حکومتی پرتشدد کارروائی سے عوامی توجہ ہٹانے کا موقع ملا ہے۔

اس سے ایران کو بحران کے وقت میں اس کی بدنام زمانہ تقسیم شدہ سیاسی اشرافیہ کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا کرنے میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کا بھی موقع ملا ہے۔

سنہ 2018 میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران پر اقتصادی دباؤ تھا۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ اور ایران کی جنگ ہوئی تو سعودی عرب کا کیا ہوگا

قاسم سلیمانی کے جنازے میں بھگدڑ سے کم از کم 50 ہلاک

’ایران نے حملہ کیا تو 52 ایرانی مقامات ہمارے نشانے پر ہیں‘

امریکی صدور اور جنگوں کی مبہم قانونی حیثیت

گذشتہ برس، ایران کے امریکی ڈرون کو مار گرانے اور جہازوں کو حراست میں لینے کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی تھی۔ اس پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ستمبر میں سعودی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے میزائل حملوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ تاہم ایران نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

ایران نے پہلے ہی عراق میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہوئے میزائل حملے سے امریکہ کو جواب دے دیا ہے۔ ملک کو فائدہ ہوسکتا ہے اگر وہ مزید انتقامی کارروائیوں سے اجتناب کرتا ہے اور اس کی بجائے عوام کی ہمدردی اور پریشانی حاصل کرتا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔

تاہم، اگر ملک مزید کارروائی کرتا ہے تو اسے اب کسی فاتح کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ایران کہاں اور کس طرح قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ تہران، جو ایک کم فوجی طاقت ہے، خود کو امریکہ کے ساتھ عسکری کارروائی اور رد عمل کے ایک نقصان دہ چکر میں پھنسا لے گا۔

ایران پہلے سے ہی امریکہ کی جانب سے عائد سخت اقتصادی پابندیوں کے تابع ہے اور جوہری معاہدے کی تعمیل کرنے کے دباؤ میں ہے۔ اگر کشیدگی جاری رہتی ہے تو یہ ایران کو مزید الگ تھلگ کر سکتی ہے۔

امریکہ

امریکہ

ٹرمپ انتظامیہ بھلے ہی ایران کی فوجی صلاحیت کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اور یہ ممکنہ طور پر نومبر میں صدر کے دوبارہ انتخاب کے امکان کو بھی بڑھاتا ہے۔

اس نے اسرائیل اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں کو بھی طاقت اور یکجہتی کا پیغام بھیجا ہے۔

لیکن اگر یہ حملے اور جوابی حملے جیسی فوجی کارروائیوں میں ملوث ہوتا ہے تو اس سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ امریکی جانوں کا مزید نقصان ہوسکتا ہے اور ایک اور طویل عرصے جاری رہنے والی علاقائی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔

اس سے مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے کے متعدد دوسرے ممالک پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

مشرق وسطی

عراق میں شیعہ قوتیں

عراق میں ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا موجودہ بحران سے قلیل مدتی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

پچھلے کچھ مہینوں کے دوران، عراقی حکومت ناقص حکمرانی اور بدعنوانی کی شکایات کے ساتھ ملک میں ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ پر بہت سے عوامی مظاہروں کا سامنا کر رہی ہے۔

یہ ملیشیا گروہ اور عراق کی بقیہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ قاسم سلیمانی کی موت کو اپنے کھوئے ہوئے اثر و رسوخ کو واپس حاصل کرنے اور ملک میں رہنے کی اپنی ضرورت کو جائز بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

عراق سے امریکی فوجیوں کو ملک بدر کرنے کا عہد ایک طویل عرصے سے ان گروہوں کا مطالبہ رہا ہے ۔

یہ عراق میں سرگرم دہشت گرد گروہوں مثلاً شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور القاعدہ کے لیے ایک سکیورٹی خلا بھی پیدا کرتا ہے۔

اسرائیل:

اسرایئل

ایران اور اسرائیل ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے لیے تنازعات میں ہیں اور ایران کی یہودی ریاست کو ختم کرنے کی خواہش ہے۔

اسرائیل کے نقطہ نظر سے بہت سارے خطرات اب بھی باقی ہیں۔ ان میں لبنان کے عسکریت پسند گروپ حزب اللہ اور شام کے صدر بشار الاسد جیسے اسرائیل کے مخالفین کے لیے ایران کی حمایت شامل ہے۔

تاہم ، جنرل سلیمانی کی موت سے ایران کو قابو کرنے کے امریکہ کے بڑھتے ہوئے ارادے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اسرائیل میں اسے ایک مثبت اقدام کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس سے ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروپوں کے خلاف اس کے سلامتی کے مفادات کو فائدہ ہوگا۔

اس حملے کے بعد ملک کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے کہا ہے کہ ‘اسرائیل امن ، سلامتی اور اپنے دفاع کے لیے اس جدوجہد میں امریکہ کے ساتھ کھڑا ہے۔’

مشرق وسطیٰ کے مظاہرین

مشرق وسطی

خطے میں تنازع کا بڑھتا ہوا خدشہ، مشرق وسطیٰ کی حکومتوں کو پورے خطے میں ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لیے ایک بہانہ فراہم کرے گا۔

خاص طور پر ، بے روزگاری اور بدعنوانی جیسے معاملات پر عراق ، لبنان اور ایران میں حالیہ مظاہرے قومی سلامتی کے جواز کا استعمال کرتے ہوئے روکے جائیں گے۔

حکومتیں ایک قدم اور بھی آگے جاسکتی ہیں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا جواز پیش کرنے اور سیاسی اصلاحات کے سلسلے میں کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے موجودہ بحران کو استعمال کرسکتی ہیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات

ٹرمپ اور سعودی ولی عہد

سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہے

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات غیر یقینی کی صورتحال میں ہیں۔

گذشتہ سال آبنائے ہرمز میں بحری جہاز کے حملوں اور سعودی عرب کے تیل کے دو بڑے مراکز پر ہونے والے حملوں سے دونوں براہ راست متاثر ہوئے تھے۔

ان حملوں کے پیچھے ایران یا ایران کی حمایت یافتہ افواج کا ہاتھ قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ ایران نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

اس کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے تہران کے ساتھ صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی تھی، جبکہ سعودی عرب نے واشنگٹن کی طرف سے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی حمایت جاری رکھی ہے۔

جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے ہی دونوں ممالک نے پرامن اور عدم استحکام پر زور دیا ہے اور سعودی وزیر دفاع کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے لیے واشنگٹن کا دورہ کیاگیا ہے

لیکن ان کی ایران کے ساتھ جغرافیائی قربت اور تناؤ کی تاریخ کے سبب انھیں ایران سے ممکنہ حملے کا خطرہ ہے۔

یورپ

ایران

ماہرین کے مطابق اسرائیل نہیں چاہتا کے ایران خطے میں بڑی طاقت بنے

یورپ پہلے ہی سے ایران کے حساس جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ یورپ، امریکہ اور ایران کے درمیان ایک عجیب و غریب درمیانی تعلق میں جڑا ہوا ہے۔

واشنگٹن کی جانب سے برطانیہ کو جنرل قاسم پر ڈرون حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی، جو یہ ظاہر کرتیں ہیں کہ ان دونوں میں تناؤ یا رابطے کی کمی ہے۔

ایسے وقت میں اگر ایران فوجی کارروائی کا انتخاب کرتا ہے تو نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون کرنے والے اور عراق میں فوج بھیجنے والے متعدد یوروپی ممالک دونوں ممالک کے درمیان کراس فائرنگ کی زد میں آ سکتے ہیں

جنرل سلیمانی کی ہلاکت بالآخر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حکمرانی اور علاقائی استحکام کے معاملات جنھوں نے لگ بھگ ایک دہائی قبل عرب بہار کے مظاہرے کو جنم دیا تھا آج بھی حل طلب ہیں۔

اس تجزیہ کو بی بی سی کے لیے ڈاکٹر صنم وکیل نے لکھا ہے، جو رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز (چیٹہیم ہاؤس) میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی نائب سربراہ اور سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp