عراق سے امریکی فوج کے انخلا کا طریقۂ کار طے کریں، عادل عبدالمہدی کی مائیک پومپیو سے بات چیت


عادل عبد المہدی

عراقی وزیراعظم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عراق میں غیر ملکی فوج کی موجودگی ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دور ہو چکی ہے۔’

عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ عراقی سرزمین سے امریکی افواج کے محفوظ انخلا کے لیے طریقۂ کار مرتب کرے۔

عراقی وزیراعظم کے فیس بک صفحے پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق انھوں نے یہ مطالبہ جمعے کو امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلیفونک بات چیت کے دوران کیا ہے۔

قائم مقام وزیراعظم کے دفتر نے بتایا کہ اس گفتگو کے دوران وزیراعظم عبدالمہدی کا کہنا تھا کہ وہ عراقی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف ہر قسم کے اقدام کو رد کرتے ہیں۔ ان اقدامات میں امریکہ کی جانب سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور عراق میں واقع دو امریکی فوجی اڈوں کے خلاف ایران کی جوابی کارروائی شامل ہیں۔

بیان کے مطابق عراقی وزیر اعظم نے امریکی سیکریٹری خارجہ سے کہا کہ وہ ایک وفد عراق بھیجیں جو پارلیمانی قرارداد پر عمل درآمد کرنے کے لیے امریکی افواج کے عراق سے بحفاظت انخلا کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے

قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور ایران، امریکہ کشیدگی: بی بی سی کا خصوصی ضمیمہ

ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملے اور امریکی ردعمل: کب کیا ہوا

مشرق وسطیٰ کے بحران میں کون جیتا، کون ہارا؟

’غیر ملکی فوج کا انخلا ایک ممکنہ تصادم سے بچائے گا‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق اپنے ہمسائیوں اور بین الاقوامی برادری سے بہترین تعلقات کا خواہاں ہے اور حکومت عراقی سرزمین پر موجود تمام غیرملکیوں اور ان کے اثاثوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

بیان میں بتایا گیا کہ عراقی وزیراعظم نے مائیک پومپیو سے شکایت کی کہ امریکی افواج اور جنگی سامان حکومت کی اجازت کے بغیر عراق میں داخل ہو رہا ہے جو کہ موجودہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

بیان کے مطابق امریکی سیکرٹری خارجہ نے عراق کے مزیراعظم کو یقین دہانی کروائی کہ ان کا ملک عراق کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے اور وہ ان نکات پر بات چیت جاری رکھیں گے۔

عراقی وزیراعظم کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ میں ایوانِ نمائندگان نے صدر ٹرمپ کو ایران سے کانگریس کی اجازت کے بغیر جنگ سے روکنے کی قرارداد بھی منظور کی ہے۔

اس سے قبل بھی وہ کہہ چکے ہیں کہ عراق میں غیر ملکی فوج کی موجودگی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دور ہو چکی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کو ملک سے بے دخل کرنے سے عراق ’ایک ممکنہ تصادم سے بچائے گا‘ اور یہ کشیدگی سے بچنے کا ‘واحد راستہ’ ہے۔

ٹرمپ، امریکہ، ایران

صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکی فوج کو نکلے کا کہا گیا تو عراق کے خلاف سخت پابندیاں لگائیں گے

ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابومہدی مہندس کی گذشتہ جمعے کو بغداد میں امریکی ڈرون کے حملے میں ہلاکت کے بعد عراقی پارلیمان نے قرارداد کے ذریعے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں موجود غیرملکی افواج کو واپس بھیج دیا جائے۔

اس قرارداد کے پیش کیے جانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اس نے امریکی افواج کو عراق چھوڑنے کا حکم دیا تو اسے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ہم نے وہاں انتہائی مہنگا ہوائی اڈہ بنایا ہے جس پر اربوں ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ جب تک وہ ہمیں اس کا معاوضہ ادا نہیں کرتے، اس وقت تک ہم نہیں نکل رہے۔‘

صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد پیر کو ایک امریکی جنرل کا خط بھی سامنے آیا جس میں امریکی افواج کے عراق سے انخلا کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

خط میں کہا گیا تھا کہ عراقی پارلیمنٹ کی طرف سے امریکی افواج کے عراق سے نکل جانے کے مطالبے کے بعد امریکہ ’آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اپنی افواج کو کہیں اور منتقل‘ کرے گا۔

ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات کو محدود کرنے کی قرار داد منظور

ایرانی کمانڈر: ’ایران ہزاروں میزائل داغنے کے لیے تیار ہے‘

کیا سلیمانی کی ہلاکت ٹرمپ کو دوبارہ صدر بنوا دے گی؟

تاہم امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے ایسے کسی اقدام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ’عراق سے انخلا سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘

واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مارک ایسپر کا کہنا تھا ’عراق چھوڑنے کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس خط میں کیا ہے۔۔۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اس میں کیا تھا لیکن عراق چھوڑنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ بات ختم‘

US soldiers in Iraq

اس وقت عراق میں 5000 امریکی فوجی موجود ہیں

اس کے بعد اعلی ترین امریکی فوجی اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین مارک ملی ایک بریفنگ میں پیش ہوئے اور کہا کہ یہ خط ’ایک غلطی‘ تھا۔

ایران کا موقف کیا ہے؟

جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور ایران کی جانب سے عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل حملے بھی کیے گئے ہیں۔

ایرانی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کی موت کا بدلہ تبھی پورا ہو گا جب امریکہ کو خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔

عراق میں امریکی تنصیبات پر میزائل حملوں کے بعد بھی ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اور صدر حسن روحانی نے الگ الگ بیانات میں کہا تھا کہ امریکہ کے خطے سے انخلا سے کم پر ایران راضی نہیں۔

علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ ‘جب بات محاذ آرائی کی آتی ہے تو اس قسم کی فوجی کارروائی کافی نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ (خطے میں) امریکہ کی موجودگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔’

امریکہ اور دیگر افواج عراق میں کیا کر رہی ہیں؟

اس وقت عراق میں پانچ ہزار امریکی فوجی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف بنائے گئے عالمی اتحاد کی چھتری تلے موجود ہیں۔

عراق میں موجود امریکی فوجی مشترکہ ٹاسک فورس ۔ آپریشن انہیریٹنس ریزولوو کا حصہ ہیں۔

یہ ٹاسک فورس جو سنہ 2014 میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی تھی۔

اس اتحاد میں ایک درجن کے قریب ممالک شامل ہیں جن کا مقصد جنگ کے علاوہ دوسری امداد کی فراہمی ہے لیکن اس ٹاسک فورس کا اصل مقصد عراقی افواج کی تربیت کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp