جنرل سلیمانی کی ہلاکت دولت اسلامیہ کے لیے اچھی خبر


IRAN

اس حملے میں عراقی ملیشیا کے چیف ابو مہدی المہندس بھی ہلاک ہوئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو مارنے کے فیصلے کے نتائج آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں۔

پہلا نتیجہ جہادیوں کے خلاف ایک نامکمل جنگ ہے۔

تقریباً اس کے بعد فوری طور پر عراق میں امریکی اتحادیوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف اپنی کارروائیاں بند کر دیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کیا کہ اب ان کا کام اپنا دفاع کرنا ہے۔

فوجی نقطہ نظر سے شاید ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ تھا بھی نہیں۔

ایران اور یہاں اس کے معاون ملیشیا نے امریکی ڈرون حملے میں سلمیانی کی ہلاکت کے بعد یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اس کا انتقام لیں گے۔

اس صورتحال نے عراق میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو فائرنگ لائن پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہ دولت اسلامیہ کے لیے اچھی خبر اور ایسے میں وہ جلد ہی تیزی کے ساتھ اپنی اس ’خلافت‘ کو بحال کر سکیں گے جسے نیست و نابوت کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے

ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا

جنرل سلیمانی کا تابوت اور ایرانیوں کا ’تبرک‘

ایرانی افواج کتنی طاقتور ہیں؟

یہ شدت پسندوں کے لیے اچھی خبر ہے کہ عراقی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں فوری طور پر ملک بھر سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سنہ 2016 اور 2017 میں عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف ایک بڑے فوجی آپریشن کی ضرورت محسوس کی گئی تھی تاکہ وہاں سے ان کا کنٹرول ختم کیا جا سکے۔

بہت سے جہادی جنگجو ہلاک ہوئے یا پھر انھیں جیل میں ڈالا گیا۔ لیکن اس سے دولت اسلامیہ ختم نہیں ہوئی۔

یہ اب بھی شام اور عراق میں موجود ہے۔ مزید زندگیاں ختم کر رہی ہے، زبردستی فنڈ اکھٹے کرتی ہے اور حملے کرتی ہے۔

عراق میں بہترین فوجی اور پولیس یونٹ ہیں جنھیں امریکی اور یورپی فوجوں نے تربیت دی ہے اور جو دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے یہاں موجود ہیں۔

سلیمانی کی موت کے بعد سے امریکہ نے ان فوجیوں کو تربیت دینے اور دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیاں کرنے کا عمل روک دیا ہے۔ اسی طرح جرمنی اور ڈنمارک بھی انھیں تربیت نہیں دے رہے۔

جرمنی اردن اور کویت سے اپنے فوجی تربیت کاروں کو واپس بلا رہا ہے۔

عراقی فوجی دولت اسلامیہ کے خلاف زمینی کارروائیوں میں بہت خطرات کا سامنا کرتے ہیں مگر تربیت کے علاوہ اپنی ضروری لاجسٹک مدد کے لیے وہ امریکی فوجوں پر انحصار کرتے آئے ہیں جو اب اپنے اڈوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

دولت اسلامیہ کے پاس اب جشن منانے کے لیے کچھ اور بھی ہے۔ جب مسٹر ٹرمپ نے سلیمانی کو مارنے کا فیصلہ کیا تو یہ ان کے لیے اپنے ایک دشمن (ٹرمپ) کی جانب سے تحفتاً دوسرے دشمن (سلیمانی) کو مرتا دیکھنے کا تماشہ بھی تھا۔

سنہ 2014 میں جہادیوں نے حملے کیے اور عراق کے ایک بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا جس میں ملک کا دوسرا بڑا شہر موصل بھی شامل تھا۔

عراق میں شیعہ عالم گرینڈ آیت اللہ علی السیستانی نے سنی شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے کال دی تھی۔

ہزاروں نوجوان شیعہ مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ سلیمانی اور قدس فوج نے انھیں فوجی یونٹس میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ ملیشیا اکثر دولت اسلامیہ کے بہت سخت دشمن ثابت ہوتے تھے۔

اب ایران کے حامی گروہ عراقی فوج کی ایک ذیلی شاخ ’پاپولر موبلائزیشن‘ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور اس ملیشیا کے نمایاں لیڈران اب مضبوط سیاسی لیڈر بن چکے ہیں۔

سنہ 2014 کے بعد امریکہ اور ملیشیا گروہوں نے ایک ہی دشمن کا سامنا کیا۔ لیکن اب شیعہ ملیشیا دوبارہ اپنے اصل کی جانب لوٹنا چاہتی ہیں جو کہ امریکہ کے خلاف وہ جنگ ہے جو اس کے خلاف سنہ 2003 میں شروع ہوئی۔

ایران

ایران کی حامی شیعہ ملیشیا نے جسے پاپولر موبلائزیشن کا نام دیا گیا ہے دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی میں اہم کردار ادا کیا

انھوں نے امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا۔ انھیں اس کے لیے سلیمانی کی جانب سے تربیت اور بہترین ہتھیار بھجوائے گئے۔ اور یہی ایک وجہ تھی جس کے باعث صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے جنرل سلیمانی پر حملہ کروایا۔

پھر جب سے صدر ٹرمپ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے باہر نکلے ہیں تب سے امریکہ اور ایران تیزی سے جنگ کے دہانے کی جانب بڑھے ہیں۔

ایران

بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کا حملہ

سلیمانی کے مارے جانے سے پہلے ہی شیعہ ملیشیا امریکیوں کو نشانہ بنانے کے طرف لوٹ رہی تھیں۔

دسمبر کے آخر میں شمالی عراق میں امریکی اڈے پر حملے میں امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکت ہوئی جواب میں فضائی حملے میں خطیب حزب اللہ کے 25 جنگجو ہلاک ہوئے۔

ان کے سربراہ ابو مہدی المہندس سلیمانی سے بغداد کے ہوائی اڈے پر ملے اور ان کے ساتھ اسی گاڑی میں ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ شدت پسند اس وقت زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جب وہ عدم استحکام، بدامنی، دشمن کے تقسیم ہونے اور کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ پہلے بھی ہو چکا ہے اور اب بھی قوی امکان ہے کہ ایسا دوبارہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp