مقصوم کے لیے انصاف؟


دوستو آج میں آپ کو ایک بیس سالہ نوجوان (مقصوم حسین) سے ملوانے والا ہوں جس سے ملے مجھے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ یہی کوئی پندرہ بیس دن پہلے کی بات ہو گی۔ لیکن ایک چائے کی میز پر ہونے والی ملاقات میں بظاہر عام سے دکھنے والے اس نوجوان نے مجھے بہت متاثر کیا۔

ایک مہینہ پہلے تک مقصوم قائداعظم یونیورسٹی کی ہٹس میں فوٹوکاپی/پرنٹنگ شاپ چلاتا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ گذشتہ سال دسمبر 15 کو، جب وہ اپنے گھر پنڈ دادنخان گیا ہوا تھا، سی ڈی اے انتظامیہ نے اس کی غیر موجودگی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کی دکان مسمار کر دی۔ مقصوم نے کبھی ڈراؤنے خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا کہ اس کی ٹین ایج کی جمع پونجی، جو کہ صرف ایک دکان تھی، اس کو بغیر کوئی پیشگی نوٹس دیے یوں مٹی میں ملا دی جائے گی۔

باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ مقصوم کے لیے ابھی تک کی زندگی کچھ آسان نہیں رہی۔ بچپن میں ماں باپ کے درمیان طلاق ہو گئی۔ گھریلو ناچاقیوں کے باعث میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔ جو عمر بچوں کے کھیل کود کی ہوتی ہے اس عمر میں مقصوم اپنے پیٹ کی آگ بھجانے میں جُت گیا۔ مختلف کام کر کے پائی پائی جوڑنے کے بعد اس نے پانچ؛ چھ مہینے پہلے اس نے یہ دکان کھولی۔ محنت کے ساتھ اپنی زندگی بدلنے کے اس کے عزمِ صمیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیس سال کی عمر میں ایک رجسٹرڈ ٹیکس پئیر ہے۔ سی ڈی اے کے 1960 ء کے آرڈینینس کے سیکشن 49۔ C کے مطابق کسی جگہ کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے تجاوزات ڈیکلئیر کر کے کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ مقصوم کا کیس اس وقت سی ڈی اے کے ساتھ چل رہا ہے۔ جس کو ایمان مزاری حاضر دیکھ رہی ہیں۔

ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوا کہ وقت نے مقصوم کو بہت جلدی بڑا اور سمجھدار بنا دیا ہے۔ اس کی باتوں سے زندگی کے سنجیدہ پہلو جھانکتے رہے۔ ایک چیز جس سے مجھے مثبت تحریک ملی وہ یہ ہے کہ مقصوم نے اپنے خواب چکنا چور ہونے کے باوجود ہار نہیں مانی۔ وہ ابھی بھی اچھے مستقبل کے لیے پُرامید ہے اور اس کے لیے کوشاں ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے قائداعظم یونیورسٹی کا اینتھروپولوجی ڈیپارٹمنٹ پسند ہے اور وہ آنے والے وقت میں اس سے ڈگری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

مقصوم جیسے نوجوان ہی اس قوم کا مستقبل ہیں۔ ان کے خوابوں کے شرمندۂ تعبیر ہونے سے ہی روشنی ممکن ہے۔ میری تمام دوستوں سے ذاتی طور پر اپیل ہے کہ اپنی حیثیت میں اس خوددار نوجوان کے لیے آواز اٹھائیں تاکہ اس کے ساتھ ہونے والے زیادتی کا ازالہ ہو سکے۔ اسے اس کے نقصان کا ہرجانہ ادا کیا جائے۔ تاکہ وہ نئے سرے سے اپنا کام شروع کر سکے۔

آخر میں ڈاکٹر بشیر بدر کا شعر جو اب ٹھیک سے سمجھ میں آیا ہے۔

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں

تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

نوٹ: تحریر لکھنے میں ایمان مزاری حاضر کے دی نیوز میں چھپنے والے آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے۔

#JusticeForMaqsoom


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments