Ukrainian#: کیا ثبوت ہیں کہ یوکرینی طیارہ ایرانی میزائل کا نشانہ بنا تھا؟


طیارہ

مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں کہ ایرانی فضائی حدود میں یوکرین کے طیارے کو حادثہ ایرانی طیارہ شکن میزائل لگنے کے باعث پیش آیا تھا۔

ایران نے ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طیارے کو میزائل سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔

تو کیا ثبوت ہے کہ طیارہ ایک ایرانی میزائل کا نشانہ بنا تھا؟

ویڈیو میں کیا ثبوت ہے؟

ایرانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں یوکرین کی بین الاقوامی ایئرلائن کی پرواز پی ایس 752 کو مبینہ میزائل کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔

ان تصاویر میں زوردار دھماکے کے بعد آگ کے شعلے دکھائی دیتے ہیں جس کے بعد طیارہ اڑان بھرتا رہتا ہے اور اپنا رخ واپس تہران کے ہوائی اڈے کی جانب موڑتا ہے اور پھر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ کر زمین سے ٹکرا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی میزائل کہاں تک مار کر سکتے ہیں

یوکرینی طیارے کی تباہی: ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

’طیارہ ایرانی میزائل سے تباہ ہوا، انٹیلیجنس رپورٹس میں اشارہ‘

بی بی سی مانیٹرنگ ٹیم نے اس مقام کی نشاندہی کی ہے جہاں سے اس ویڈیو کی عکس بندی کی گئی، یہ ویڈیو تہران کے مغرب میں واقع رہائشی علاقے پارند سے بنائی گئی ہے۔ یہ امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے، جہاں سے طیارے نے اپنی اڑان بھری تھی۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق، رہائشی عمارتیں، ایک تعمیراتی سائٹ اور سٹوریج ٹینک، سب کچھ جو اس ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں، گوگل ارتھ امیج کے ذریعہ اس مقام سے ملتا ہے۔

نقشہ

کیا تصاویر میں کوئی سراغ ہیں؟

ہوائی جہاز کے ملبے کی بہت سی تصاویر اب میڈیا سائٹس پر دستیاب ہیں۔ ان تصاویر اور اس ملبے کا مفصل معائنہ کرتے ہوئے آگ کی نشاندہی کرنے والے نشانات جیسے اہم سراغ لگائے جا سکتے ہیں۔

دھماکہ خیز مواد کی باقیات جو ہم جہاز کے ملبے پر دیکھ سکتے ہیں، بم یا کسی میزائل کے ممکنہ چھروں کے نقصان کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔

ایک طیارہ شکن میزائل کو عام طور پر ہدف سے کچھ فاصلے پر دھماکہ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس سے نکلنے والے چھرے جہاز کو لگنے سے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے۔

جہاز کے ملبے سے ملنے والے تباہ شدہ حصوں میں بیرونی سوراخ ہوائی جہاز کے باہر سے ہونے والے دھماکے یا نقصان کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔

اور کسی بھی سوراخ کی جسامت اور شکل کا تفصیلی تجزیہ کرنے سے استعمال ہونے والے میزائل کی نوعیت کا اشارہ بھی مل سکتا ہے۔

فی الحال اس مرحلے پر ایسی بہت ساری تصاویر جن کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ ان تصاویر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ میزائل حملے سے ہونے والے نقصان کو ظاہر کرتی ہیں۔

طیارہ

ان میں سے کچھ میں روسی ساختہ ٹور میزائل سسٹم کے ٹکڑوں کو بھی دکھایا گیا ہے۔

ابھی تک ان تصاویر کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ انھیں کہاں یا کب لیا گیا تھا، کیوںکہ ان میں قابل شناخت کوئی جگہیں نہیں ہیں۔

امریکی جریدے نیوز ویک نے سینیئر امریکی عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ طیارے پر حملہ کرنے کے لیے ایک میزائل استعمال کیا گیا تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق امریکی انٹیلیجینس ذرائع کا کہنا ہے کہ دو میزائل داغے گئے تھے۔

تحقیقاتی ویب سائٹ ’بیلنگ کیٹ‘ کے ایلیٹ ہِگنس نے حادثے کی جگہ کے قریب سے مبینہ طور پر ٹور طیارہ شکن میزائل کے ملبے کی تصاویر شیئر کیں ہیں۔

انھوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تصویری ثبوت ’ابھی تک تصدیق شدہ نہیں ہیں اور اب بھی اس تصویر میں جو کچھ ہے اس کی بنیاد پر اس کو جیو لوکیٹ کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘

https://twitter.com/EliotHiggins/status/1215227238595121152

سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر یہ میزائل طیارے سے لگے ہیں تو ان تصاویر میں میزائل کا اوپری حصہ برقرار کیوں دکھائی دیتا ہے؟

تاہم ایک ماہر جن سے ہم نے بات کی ہے نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میزائل کی ناک (اوپری حصہ) کا حادثے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر لگ بھگ اپنی اصل حالت میں برقرار نظر آنا حیرت کی بات نہیں ہے۔ اس کے ناک (میزائل کا اوپری حصہ) میں اس کی رہنمائی کا نظام موجود ہوتا ہے اور وہ خود ہدف سے نہیں ٹکراتا۔

ایران سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق حادثے کی جگہ کو پہلے ہی بلڈوز کر دیا گیا ہے اور طیارے کے ملبے کو اٹھا لیا گیا ہے۔

اس سے اب تک کے اکٹھے ہونے والے ڈیجیٹل شواہد میں اس بات کا تعین کرنے میں اہم مدد حاصل ہوتی ہے کہ طیارے کے ساتھ اصل میں کیا حادثہ پیش آیا۔

امریکی نیٹ ورک سی بی ایس سے تعلق رکھنے والی الزبتھ پامر نے حادثے کی جگہ کی ایک تصویر ٹویٹ کی ہے۔ جس کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ یہ تصویر 10 جنوری کو مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے لی گئی تھی۔

وہ لکھتی ہیں کہ ’مقامی افراد کا کہنا ہے کہ عملاً گذشتہ روز طیارے کے تمام ٹکڑے اٹھا لیے گئے تھے۔ اضافی مادے کو اب حادثہ کا مقام صاف کرنے کے لیے اٹھایا جا رہا ہے۔ یہاں کوئی سکیورٹی نہیں ہے، محافظ نہیں ہیں، تفتیش کاروں کا کوئی نشان نہیں ہے۔‘

https://twitter.com/elizapalmer/status/1215525563961630720

دیگر شواہد کیا ہیں؟

وہ نام نہاد جہاز کے ’بلیک باکس‘ ہیں۔

فلائیٹ ڈیٹا ریکارڈر نے طیارے کے نظام میں چلنے والی ہر چیز کو ریکارڈ کیا ہے۔ اگر کوئی داخلی خرابی ہوئی ہے تو یہ انکشاف کرنے میں اہم ہو گا۔

صوتی ریکارڈر کو کاک پٹ کی آڈیو کو دو گھنٹے تک ریکارڈ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے اور اس سے اہم سراغ مل سکتے ہیں کیونکہ اس میں ریکارڈ ہوا ہو گا کہ اس وقت پرواز کا عملہ کیا کہہ رہا تھا۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ بلیک باکس سے ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کرنے میں دو ماہ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

ایرانی سرکاری ٹی وی نے یوکرینی طیارے کے بلیک باکس کی تصاویر نشر کی ہیں۔ جسے بی بی سی مانیٹرنگ نے اس ٹویٹ میں شیئر کیا ہے۔

https://twitter.com/BBCMonitoring/status/1214861186098970624

ہوابازی کے ماہر جولین برے کہتے ہیں کہ اس کی تحقیقات میں کافی وقت لگتا ہے کیونکہ بہت زیادہ اعداد و شمار موجود ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہنرمند تجزیہ کار کچھ ہفتوں میں اعداد و شمار سے ابتدائی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

اگر بم یا میزائل طیارے کو تباہ کرتا ہے تو بلیک باکس اسے ایک حد تک ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ کام کرنا بند کر دیتے ہیں البتہ صوتی ریکارڈر اس وقت سے پہلے کی آواز ریکارڈ کر سکتا ہے۔

کچھ تحقیقات میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ سنہ 2010 میں بیروت سے ایتھوپیا جانے والے طیارے کے حادثے کی تحقیقات میں دو برس لگے تھے، حالانکہ اس جہاز کے بلیک باکس فرانس بھیجے گئے تھے جہاں دنیا کے چند اعلیٰ تفتیش کار موجود ہیں۔

نقشہ

یہ کیسے ہوا ہو گا؟

عراق میں امریکی اہداف پر ایرانی میزائلوں کے حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکہ کی طرف سے ممکنہ جوابی حملوں کی توقع میں ایرانی فوج انتہائی ہائی الرٹ ہو گی۔

یہ علاقہ جہاں طیارہ گرا تھا وہ نہ صرف دارالحکومت تہران کے قریب تھا بلکہ ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک فوجی اڈے کے بھی قریب تھا۔

تاہم ایک مسافر برادر ہوائی جہاز کو غلطی سے نشانہ بنانے سے روکنے کے لیے متعدد احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں تھیں۔

میزائل آپریٹرز کے لیے استعمال ہونے والے ریڈار سسٹم کو تمام مسافر بردار ہوائی جہاز سے شناختی سگنل لینے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلو جسٹن برونک کا کہنا ہے کہ ’فلائٹ PS752 اپنی مسافر بردار شناخت کی رجسٹریشن، مقام اور اونچائی کو ظاہر کرنے والے ٹرانسپونڈر کوڈ کو منتقل کر رہی تھی۔ اور میزائل ریڈار آپریٹر کو یہ معلومات دیکھنے کے قابل ہونا چاہیے تھا۔‘

ایرانی جہاز

اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ مسافر بردار طیارہ کسی میزائل حملے سے تباہ ہوا ہے تو یہ بے مثال نہیں ہو گا۔

سنہ 2014 میں روسی ساختہ میزائل نے یوکرین کی فضائی حدود میں ملائیشین مسافر بردار طیارے کو نشانہ بنایا تھا جس میں 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

سنہ 1988 میں ایک امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس ونسنز نے ایرانی طیارے کو غلطی سے نشانہ بنا دیا تھا جس میں 290 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

سنہ 1983 میں ایک سوویت لڑاکا طیارے نے ایک کوریا کے مسافر طیارے کو سوویت فضائی حدود میں بھٹکنے کے بعد گرا دیا تھا اور اس حادثے میں طیارے پر سوار تمام 269 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp