ایک تھے دو شیر


یہ کہانی پہلے ایک شیر کی ہے اور پھر ایک اور شیر کی ہے اور پھر پرجا کی ہے اور پھر شیروں کی بدلتی جون کی ہے پھر اس کہانی کے آخر میں ایک سوال اٹھے گا کہ کیا شیر بھی لومڑی ہو تا ہے، جو مصالحت، مفاہمت اور عیاری کی ڈگر پر چلتی اور زمانہ شناس کہلائی جاتی ہے۔ یا جس کو شیر کہا جا رہا ہو تا ہے وہ اصل میں لومڑ بھی نہیں بلکہ گیدڑ ہو تا ہے۔

ایک تھا کشمیر کا شیر، جس کا نام تھا شیخ عبداللہ۔ جب 1846 میں ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے پچھتر لاکھ روپے نانک شاہی میں کشمیر کی زمین کا ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کی روحوں کا سودا بھی ساتھ ہی کر دیا تھا تویہ فرض بھی کرلیا تھا کہ کشمیری رعایا راجا کی غلامی کے لئے ہی پیدا ہو ئی ہے۔ گلاب سنگھ سے رنبیر اور رنبیر سے پرتاپ اور پرتاپ سے ہری سنگھ کے ہاتھ جب کشمیر لگا تو اس وقت پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد باقی بر صغیر کی طرح کشمیر میں بھی انسانی حقوق کا شعور بیدار ہو رہا تھا۔

اسی لئے 13 جولائی 1931 کو کشمیر کی آزادی کے لئے جلوس نکالا گیا۔ ڈوگرہ فوج کے میجر محمد خان نے 31 اگست کو اس جلوس کے ساتھ جان بوجھ کر نرمی برتی اورآے آر ساغر کی سربراہی میں ہونے والے جس جلسے کو انہیں روکنے کا حکم تھا، انہوں نے اسے ہو جانے دیا تھا۔ اس جرم کی سزا انہوں نے یوں پائی کہ انہیں فوج سے نکال دیا گیا اور قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

”زندگی کے آخری آٹھ دس سال انہوں نے جہلم پاکستان میں لکڑی کے گوداموں کی چوکیداری کرتے انتہائی غربت اور گمنامی میں گزارے۔ “ اس مرد ِ مومن کو شیر کہنا تو دور کی بات کسی کو ان کی اس قربانی کا کبھی خیال تک نہیں آیا۔ خیر پاکستان سے محبت کر نے اور اس پاداش میں سزا پانے کی یہ کوئی ایک کہانی نہیں ہے، بنگلہ دیش میں کیمپوں میں آج بھی وہ لوگ بے نام و نشان، عبرت کا نشان بنے بیٹھے ہیں جنہوں نے 1971 میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیاتھا۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے ساتھ بے اعتنائی برتنا اور بے وفائی کرنا تو کوئی حکومت ِ پاکستان سے سیکھے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ آسیب کا سایہ ہے یا کوئی بددعا ہے کہ اس ملک کی حرکت نہ ہو نے کے برابر ہے مگر پھر بھی جئے جا رہا ہے۔

بے وفائی اور بے اعتنائی کی سزا موت تو نہیں ہو تی مگر موت سے بدتر زندگی ہو تی ہے جو کہ ہم ”پاکستان“ کی صورت دیکھ رہے ہیں۔ نہ عزت نفس بچی، نہ اخلاق بچا اور نہ ہی وہ دولت بچی جس کی خاطر یہ سب تماشے کیے جاتے ہیں۔ شایدمحبت کی قدر نہ کرنے والوں کا یہی انجام ہو تا ہے۔

شیر کا لقب ملا تو کسے، شیر ِکشمیر کہا گیا تو کون وہ تھا شیخ عبداللہ۔ جس نے 1946 میں جب معاہدہ امرتسر کو ہوئے پورے سو سال گزر چکے تھے بڑے جوش سے مہاراجہ ہر ی سنگھ کو للکارا تھا اور کہا تھا:

”ایک ایک کشمیری کو تین تین پیسے میں بیچا گیا ہے اور یہ سودا انتہائی شرمناک ہے“

اس شیرِکشمیرنے 1932 میں چوہدری غلام عباس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے جموں کشمیر مسلم کانفرس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں سیکولر کے جھنڈے میں لپیٹ کر نیشنل کانفرس کیا اسی دور اندیشی کی وجہ سے بعد میں بھارت کے ساتھ کشمیر کا ناجائز الحاق کیا تو ضمیرپر کوئی بوجھ نہ پڑا۔ اور نہرو سے دوستی نبھانے کی رسم مکمل ہو ئی کیا ہوا اگر کشمیر کے تمام راستے پاکستان کو جاتے تھے، تمام دریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف تھا اور آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی تھی مگر شیخ صاحب کا دل نہرو کا تھا سو دل کی سنی گئی، کشمیریوں کا ایک دفعہ پھر سودا ہوا، معاہدہ امرتسر معاہدہ دہلی میں تبدیل ہوا کہ 29 ستمبر 1947 کو جب شیخ عبداللہ کو رہا کیا گیا تو ان کے ساتھ گرفتار دوسرے باغی غلام عباس کو رہا نہ کیا گیا تھا۔ شیر ِ کشمیر کی دلی اور کشمیر کے درمیان آنیاں جانیاں ہو نے لگی۔

دوسری طرف ہری سنگھ نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے، ایسے سارے باغیوں کو پکڑ پکڑ کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ ہری سنگھ کو گمان ہوا تھاکہ یہ جو شیر ِ کشمیر ہے یہ سچ مچ کا شیر ہے، سو وہ اس سے ڈر گیا تھا اور اسے جیل میں بند کر دیاتھا۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا بقول محمود ہاشمی کے کہ: ”جب کو ئی سودے بازی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو ضروری نہیں ہو تا کہ وہ اس سودے کو سرے سے ختم ہی کر دینا چاہتا ہو بلکہ آئین ِ سوداگری میں اس طرح کی آوازیں نئے سودے کی تمہید بھی ہو سکتی ہیں چنانچہ آج دلی میں سو سالہ پرانے سودے کی تجدید ہو رہی تھی۔

” ہری سنگھ جو لومڑ کو شیر سمجھ کرکچھ دیر کے لئے ڈر کر سری نگر سے بھا گ کر جموں میں چھپا بیٹھاتھا، واپس آچکا تھا اب اس کے ساتھ یہ لومڑ (شیخ عبداللہ) وہ لومڑ (پنڈت نہرو) اور ان سب کا راکھا ماؤنٹ بیٹن سب ساتھ تھے۔ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو معاہدہ دلی کے تحت ایک مرتبہ پھر سے بیچ دیا۔ غلام عباس، جو اس نام نہاد شیرسے الگ ہو کر پرانے والی مسلم کانفرس کا بھر م نبھائے جا رہے تھے ابھی جیل میں ہی تھے اور باہر اخبار فروش یہ نعرے لگا رہے تھے :

”تازہ خبر یہ آئی ہے۔ مہاراجہ ہمارا بھائی ہے۔ “

دوسری طرف نیشنل کانفرسیاں شیخ عبداللہ کو ”انقلابی“ اور ان ہلکی پھلکی کروٹوں کو ”انقلاب“ کا نام دے رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے :

”عوامی راج زندہ باد۔ شیر ِ کشمیر زندہ باد، شیخ عبداللہ زندہ باد“

اورعام لوگ یہ سوچتے تھے کہ ہم تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں اس تاریخ کا جس میں کشمیر میں انقلاب آ رہا ہے اور لوگوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔ مسلم کا لفظ ہٹا کر کشمیری نیشلنزم کی بات ہو نے لگی، پاکستان غریب اور گندا ملک کہہ کر دھتکارا جانے لگا۔ شیخ عبداللہ اتنا ہر دل عزیز رہا نہیں تھا مسلم کو نیشنل میں بدل کر مگر اسے ظاہر یہی کیا جا رہا تھا۔ شیر کو دلی اور نہرو سے دوستی کا انعام یہ ملا کہ 1947 سے 2002 تک اس کی نیشنل کانفرس مختلف حالتوں میں جموں کشمیر پر حکمرانی کرتی رہی، پہلے یہ شیر وزیر ِ اعظم جموں کشمیر بنا پھر بھارت کے ساتھ کشمیریوں کی خواہش کا سودا کرتے کرتے جموں کشمیر ایک خود مختار ریاست نہیں بلکہ بھارت کا ایک صوبہ بن کے رہ گیا تو اس کا عہدہ بھی وزیر اعظم سے صوبے کا وزیر اعلی تک رہ گیا مگر اب بھی اسے کوئی اعتراض نہیں تھا اور آج مودی کے کرم سے 370 آرٹیکل کو قتل کر کے صوبے کی بھی انفرادی حیثیت ختم کر دی گئی تو شیر یہ دیکھنے کو موجود تو نہیں مگر اس کی نسلیں اور ان کشمیریوں کی نسلیں جن کی سودے بازی کرتے وہ پل بھر کو نہیں رکا تھا، آج وہی بویا کاٹ رہی ہیں جو اس شیر نے ان کی راہوں میں کانٹوں کی صورت بو دیا تھا۔ لیڈر وہ نہیں ہو تا جو وقتی یا ذاتی تعریف اور مفاد کی خاطر فیصلے کرے، حکمت اور فہم یہ ہے کہ لیڈر آنے والی نسلوں کے راستے سے کانٹے چن جائے۔ کوئی پھول بو جائے۔

شیر  کشمیر کے بعد ایک اورشیر ہے شیر  پنجاب نواز شریف۔ پنجاب نے ایسا شیر پیدا کیا کہ کشمیر کے شیر کی یا د آگئی ”کشمیر اداس ہے“ کہ مصنف محمود ہاشمی کے کہے الفاظ سمجھنے والوں کو دن میں تارے دکھا گئے کہ لازمی نہیں کہ کسی سودے کے خلاف آواز بلند کر نے والا سودے کو سرے سے ختم ہی کرنا چاہتا ہوں بلکہ یہ کسی نئے سودے کی تمہید بھی ہو سکتی ہے۔

”عوامی راج زندہ باد“ کا نعرہ کانوں کے لئے اب اجنبی نہیں ہے اور جب جمہوریت کا ڈھول گلے میں لٹکا کرادھر ادھر پھدکا جا تا ہے تو سوشلزم، عوامی راج اور جمہوریت کی باتوں سے کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے۔ نعروں کا کیا ہے جو بھی بھلا سا لگے اٹھا لو اور اسے جلوسوں کا حصہ بنا دو، وہ آواز  خلق خدا ہو جاے گا اور پھر وہی دیکھتے ہی دیکھتے نقارہ خدا بن جا ئے گا۔

نعرے تو شیر کشمیر کے بھی غلط نہ تھے مگر روس اور چین کے انقلاب کی موٹی موٹی باتیں دہرا دینے سے اور نیتوں میں کھوٹ رکھ دینے سے نہ کشمیر میں انقلاب آسکتا تھا اور نہ پاکستان میں مکمل جمہوریت آسکتی ہے کہ جمہوری لوگوں کے نعروں کا ان کی نیتیوں سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ نیتیں کہتی ہیں صرف ذاتی اقتدار کو طول دو، نیتیں کہتی ہیں اس پاکستان کو جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹو، نیتیں کہتی ہیں جب اقتدار میں آتے ہو تو اپنے سب عزیز و اقارب کو خوب نوازو اتنا کہ پو رے پاکستان کے بچوں کی ہڈیوں اور خون کا گودا تک ان کے جسموں تک پہنچ جائے۔

”ووٹ کو عزت دو، انسان کو عزت دو۔ “ سول سپریمیسی کی جھوٹی ہی سہی مگر جنگ تو لڑنے کا دعوی کر ہی رہے تھے مگر کتنے کھوکھلے تھے اور نہیں جانتے کہ ووٹ سے بھی پہلے ایک انسان کی اپنی عزت اور وقار ہو تا ہے تو جناب ِ شیر پہلے خود کو عزت دو، اپنی عزت نفس اتنی بلند کرو کہ ہر ”فوجی بوٹ“ تمھاری گردن مسل نہ سکے۔ مفاہمت اور مصلحت کے نام پر بار بار این او آر کر کے، بار بار اپنی کرپشن کے مقدمات کو معاف کروا کے بار بار حکومتوں کے مزے لوٹنے اس ملک میں نہ آتے اور حکومتیں چھن جانے پر واپس عیش و عشرت کی زندگی میں نہ چلے جاتے۔ ووٹ کو عزت دو۔ وہ بڑا فوجی ووٹ کو تب ہی عز ت دینے دے گا جب ایک سیاستدان خود کو عزت دے گا، اس عوام کو دے گا جس کے راج کا نعرہ لگا کر ترقی پسندوں کو ساتھ ملا لیا جاتا ہے۔

مگر کیا ہم نے ہمیشہ جمہوری ادوار میں بھی مہاراجہ ہری سنگھ کا دور نہیں دیکھا؟ کیا عوام کو عوامی راج کا نعرہ مار کر بار بار بدھو نہیں بنایا جا تا؟ کس دور میں عوام نے راج کیا؟ بھٹو بادشاہ، اس کی بیٹی رانی، رائیونڈ پیلیس اور اس کے اندر رہنے والے مغلیہ خاندان سے ایک درجہ بھی کم کی زندگی گزار تے ہیں۔ بادشاہوں کے زوال کا تو پھر کو ئی وقت ہوا کرتا تھا، ان جمہوری اقدار کا ڈھول پیٹنے والے لومڑوں کا تو کوئی زوال بھی نہیں ایک بل میں گھستے ہیں تو دوسرے سے نکل آتے ہیں۔

نہ پیسہ ختم ہو تا ہے نہ جاہ جلال کہ آج کے ماڈرن دور کے شہنشاہ  عالم ہیں جو صرف اپنے اصلی آمرانہ چہرے کو چھپانے کے ہی ماہر نہیں بلکہ اپنے خزانوں اور جائیدادوں کو بھی محفوظ رکھنے میں طاق ہیں اس لئے ان کی گرد کو کوئی نہیں پہنچ سکتا کہ انہوں نے مغلون اور پرانے جمہوری بادشاہوں کی موتوں اور زوال سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب ان کوخود کو خنوط کرنے کے سب طریقوں پر مکمل عبور ہے۔

اور ان سب عیاریوں اور نعرے بازیوں سے آپ کی سودے بازیوں میں آپ کی مادی قیمت تو ضرور بڑھتی ہو گی مگر اخلاقی اور روحانی قدر و قیمت دو پیسے برابر نہ رہ جاتی ہو گی۔ اس لئے ایسے لیڈروں کے تلے پرورش پانے والے ملک مالی طور پر ہی دیوالیہ نہیں ہو تے اخلاقی طور پر بھی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے آج یہ حال ہے کہ مائیں بچوں کو یہ نصیحت نہیں کرتیں کہ سچ بولو اور ضمیر کی آواز سنو اور غریب کی مدد کرو بلکہ خوشامد اور منافقت کو مصلحت اور زمانہ شناسی کہہ کر صرف اپنی ذاتی ترقی پر نظر مر کوز کر نے کو کہتی ہیں۔ بیویاں اپنے شوہروں کو یہ تاکید کہہ کر گھر وں سے نہیں بھیجتیں کہ رزق حلال میرے بچوں کے منہ میں جانا چاہیے بلکہ کہتی ہیں فلاں کا بچہ اتنا نالائق تھا اور آج اتنی بڑی پوسٹ پر بیٹھا ہے اور اتنی چمکتی گاڑی اس کے نیچے ہے کچھ بھی ہو میرے بچے کو یہ سب ملنا چاہیے۔ بیٹیاں باپوں سے یہ نہیں کہتیں کہ ابا ہم عزت سے گھر میں بیٹھ کر روکھی سوکھی کھا لیں گی بلکہ وہ جہاں سے بھی جیسے بھی جس بھی سیڑھی کو استعمال کر کے پیسہ کماتی ہیں، خود پر بھی لگاتی ہیں اور ماں باپ کے گھر وں کو بھی بھرتی ہیں اور ماں باپ اف تک نہیں کرتے، اور فخر سے دوسروں کو بتاتے ہیں ہماری بیٹی بیٹوں سے بڑھ کر نکلی۔

اخلاقیات کی لاش پر جب سب قوم نے اجتماعی نمازجنازہ ادا کر دی ہے تو سر پر بوٹ پڑے یا چپل۔ شیروں کی نسلیں تو ختم ہو گئیں اب سرکس والے جعلی شیروں اصلی لومڑیوں اور گیڈروں کا زمانہ ہے تووہ خاکی وردیاں پہن کے آئیں یا شیروانیاں زیب تن کر کے گھومے پھریں کیا فرق پڑتا ہے۔ قوم کی اجتماعی موت تو ہو چکی۔ دفنانے کے طریقہ کار پر کیا بحث؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments