چین میں سانس کی بیماری کا باعث بننے والا نیا وائرس دریافت


چین وانہو

ایک پراسرار وائرس جو کہ اب تک سائنس کے علم میں نہیں تھا چین کے شہر ووہان میں پھیپھڑوں کے شدید عارضے کا باعث بن رہا ہے۔

دس جنوری تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 50 افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے سات کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔

جب کوئی نیا وائرس دریافت ہو جس سے لوگوں کو نمونیا ہو، ایسا وائرس ہمیشہ ہی صحت عامہ کے حکام کے لیے تشویش کا باعث بنتا ہے اور دنیا بھر کے حکام اس وقت ہائی الرٹ پر ہیں۔

لیکن کیا یہ ایک عارضی وبا ہے جو آج ہے اور اگلے دن ختم ہو جائے گی یا یہ کسی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ ہے؟

یہ بھی پڑھیے

آجکل بیماریاں پھیلانے والے مہلک ترین وائرس

جنسی وائرس کے بارے میں غلط فہمیاں

یہ وائرس کیا ہے؟

اس جراثیم کے نمونے مریضوں سے حاصل کیے گئے ہیں اور ان کا لیبارٹری میں جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین میں حکام اور عالمی ادارۂ صحت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کرونا وائرس (ایسا وائرس جو زکام پیدا کرتا ہے) سے پیدا ہونے والی وبا ہے۔

کرونا وائرس، وائرس کی قسم یا خاندان ہے لیکن اس قسم کے وائرس میں صرف چھ ایسے ہیں جو کہ انسان کو متاثر کرتے ہیں۔ نیا دریافت ہونے والا ایسا ساتواں وائرس ہو گا۔

چین میں سنہ2002 میں نظام تنفس کو شدید متاثر کرنے والی بیماری (سارس) جو کہ کروناوائرس کی وجہ سے پھوٹی تھی اس میں 8098 متاثرہ افراد میں سے 774 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ویلکم ٹرسٹ نامی ادارے کی ڈاکٹر جوزی گولڈنگ نے کہا ’سارس کی تلخ یادیں آج بھی تازہ ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت خوف زدہ بھی ہیں لیکن اس تجربے کے بعد سے ایسی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ہم زیادہ بہتر طور پر تیار ہیں۔‘

وائرس

کروناوائرس کی چھ اقسام ہیں

کیا یہ واقعی بہت سنگین ہے؟

کرونا وائرس نزلے کی علامت سے شروع ہو کر مریض کی ہلاکت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

نیا دریافت شدہ وائرس ابھی کہیں درمیان میں ہے۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے پروفیسر مارک وولہاؤس نے کہا ’جب کوئی نیا کرونا وائرس دریافت ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بیماری کی علامات کتنی شدید ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’نئے وائرس سے ہونے والی علامات نزلے کی علامات سے شدید ہیں لیکن ابھی تک اتنی سنگین نہیں ہیں جتنی سارس کے وائرس کی تھیں۔‘

یہ کہاں سے آیا ہے؟

نئے وائرس ہمیشہ ہی سامنے آتے رہتے ہیں۔

وہ کسی جاندار میں ہوتے ہیں جہاں ان کا پتا نہیں چلتا اور اس سے وہ انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ناٹنگھم کے وائرولوجسٹ پروفیسر جوناتھن بال نے کہا ’اگر ماضی کی وباؤں کو دیکھیں اور اگر یہ کوئی نیا کروناوائرس ہے تو یہ کسی جانور سے ہی آیا ہو گا۔‘

سارس وائرس سیویٹ کیٹ نامی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔

اور نظام تنفس کی بیماری مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (میرس) جس کے سنہ 2012 میں سامنے آنے کے بعد سے اب تک 2494 افراد متاثر ہو چکے ہیں اور اس سے 858 ہلاک ہو چکے ہیں، وہ اونٹوں کی ایک نسل سے انسانوں میں پھیلا تھا۔

کونسا جانور؟

ایک مرتبہ اگر یہ پتا چل جائے کہ یہ وائرس کس جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے تو اس کا علاج کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔

موجودہ کیسز کا تعلق ساؤتھ چائنہ سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے پایا گیا ہے۔

چین

مسافروں کے بھی طبی معائنے کیے جا رہے ہیں

لیکن جہاں سمندر میں پائے جانے والے کچھ ممالیہ جانورں میں کرونا وائرس پایا جاتا ہے (مثلاً بیلوجا وہیل) مگر اس مارکیٹ میں کچھ جنگلی جانور بشمول مرغیاں، چمگادڑیں، خرگوش اور سانپ بھی رکھے جاتے ہیں جن کے باعث بیماری کا سبب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

آخر چین ہی کیوں؟

پروفیسر وولہاؤس نے کہا کہ اس کی ایک وجہ زیادہ اور گنجان آبادی اور اس آبادی کی ایسے جانوروں سے جسمانی قربت، جن میں یہ وائرس پایا جاتا ہے، ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ چین میں یا دنیا کے اس حصے میں یہ وبا پھوٹی ہے۔

یہ کتنی آسانی سے پھیلتی ہے؟

اس نئی وبا کے بارے میں ایک امر جو اطمینان کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ یہ نیا وائرس بظاہر انسانوں سے انسانوں میں نہیں پھیلتا۔

پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والے نئے وائرسز کے بارے میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کھانسی اور چھینکوں کا باعث بنتے ہیں جو وائرس کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔

اگر یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو رہا ہے تو آپ کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس سے طبی عملہ بھی متاثر ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مریضوں سے براہِ راست رابطے میں آتے ہیں۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔

تاہم کچھ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ انسانوں سے انسانوں میں نہیں پھیل رہا۔

پروفیسر بال کا کہنا ہے کہ قلیل عرصے میں 59 افراد کے جانوروں کے وائرس سے متاثر ہونا بظاہر لگتا ہے کہ بہت زیادہ ہے لیکن یہ ابھی ایک حل طلب سوال ہے۔

پروفیسر وولہاؤس کا کہنا ہے ’میں شک میں مبتلا نہیں بلکہ محتاط ہوں یہ ابھی قبل از وقت ہے۔ زیادہ تر کرونا وائرس انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ میری ابتدائی تشویش ہے۔

یہ کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے؟

جتنے بھی لوگوں میں یہ علامات سامنے آنا شروع ہوئیں وہ 12 سے 29 دسمبر 2019 کا درمیانی عرصہ تھا۔

اس کے بعد کوئی نیا مریض سامنے نہیں آیا۔

ڈاکٹر گولڈنگ نے کہا کہ یہ مثبت امر ہے کہ یہ بیماری پھیل نہیں رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ چین اس بارے میں سنجیدہ ہے اور اس پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن ہمیں ابھی انتظار کرنا ہے۔

ابھی یہ تشویش اپنی جگہ موجود ہے کہ چینی نئے سال کے موقع پر لاکھوں چینی باشندے چھٹیوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور اس سے یہ بیماری دوسرے علاقوں میں پھیل سکتی ہے۔

چین کے حکام نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟

اس جراثیم سے متاثرہ افراد کو الگ رکھا جا رہا ہے تاکہ اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد جو وائرس سے متاثرہ افراد سے براہ راست جسمانی رابطے میں آئے تھے ان کی نگرانی کی جا رہی کہ کہیں ان میں بیماری کی کوئی علامات تو نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ مچھلی مارکیٹ کو بھی بند کر دیا گیا اور اس کی صفائی اور جراثیم سے پاک کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کتنی تشویش کا شکار ہیں؟

ڈاکٹر گولڈنگ نے کہا جب تک مزید معلومات حاصل نہیں ہو جاتیں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس بارے میں کتنی تشویش اور کتنی فکر ہونی چاہیے۔

انھوں نے کہا اس بات کی تصدیق ہونا بہت ضروری ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے اور یہ ہمیشہ ہی تشویش کی بات ہوتی ہے۔

’ایک مرتبہ یہ انسانی خلیوں میں داخل ہو جائے تو یہ فوراً اپنے اندر تبدیلی پیدا کر سکتا ہے جس سے یہ زیادہ مؤثر اور زیادہ خطرناک انداز میں منتقل ہو سکتا ہے۔‘

’آپ وائرس کو موقع نہیں دینا چاہیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp