میگھن اور ہیری کینیڈا میں ہی کیوں رہنا چاہتے ہیں؟


جب سے برطانیہ کے شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن نے شاہی فرائض سے دستبردار ہو کر شمالی امریکہ اور کینیڈا میں رہنے کا اعلان کیا ہے، تب سے ہر طرف پریشانی کا عالم ہے۔

کیا شاہی جوڑا شمال میں اپنا گھر بنائیں گے؟ وہ کہاں رہیں گے؟ وہ کیا کریں گے؟

اگرچہ ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ کہاں آباد ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن بی بی سی کے شاہی نمائندے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میگھن کینیڈا روانہ ہو گئی ہیں۔

گریٹر وکٹوریہ کے وینکوور جزیرے پر چھ ہفتے کرسمس کی تعطیلات گزارنے کے بعد، وہ اور شہزادہ ہیری یہ اعلان کرنے کے لیے برطانیہ گئے تھے۔

ہمارے نمائندے کے مطابق شاہی جوڑے کے بیان سے متعلق بکنگھم پیلس بالکل لاعلم تھا۔

یہ بھی پڑھیے

شہزادہ ہیری اور میگھن اخراجات کیسے پورے کریں گے؟

برطانوی جرائد کو شہزادی میگن مارکل کیوں ناپسند ہیں؟

میگھن، ہیری کے مومی مجسمے شاہی انکلوژر سے منتقل

اگر وہ کینیڈا میں رہنے کاانتخاب کرتے ہیں تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ہمیں کیوں حیران نہیں ہونا چاہیے۔

وکٹورین کرسمس

کینیڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق چھٹیوں کے دوران شاہی جوڑے کو وکٹوریہ سے باہر جنگل میں پہاڑوں پر چڑھتے دیکھا گیا۔

موسیقار ڈیوڈ فوسٹر جو اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے ڈیلی میل کو بتایا کہ انھوں نے اپنے دوست کی ویران جائیداد پر شاہی جوڑے کے رہنے کا انتظام کرنے میں مدد کی۔ ان کی اہلیہ کیتھرین میک فی، لاس اینجلس میں میگھن کے ساتھ سیکنڈری سکول جاتی تھیں۔

https://twitter.com/queenscomtrust/status/1209241848411303941?s=20

شاہی جوڑے کے نیم مستقل طور پر کینیڈا میں آباد ہونے کی قیاس آرائیوں کے بعد بین الاقوامی میڈیا نے شہر میں ڈیرے جما لیے ہیں۔

مقامی چیک ٹی وی کے نیوز ڈائریکٹر سکاٹ فی نے بی بی سی بریک فاسٹ کو بتایا ’ملک بھر، دنیا بھر اور آپ کے ملک سے میڈیا پہلے ہی اپنا سیٹ اپ لگانے کا خواہاں ہے۔‘

’ٹیبلوائڈ اخبار اگر ابھی تک پہنچے نہیں ہیں تو وہ راستے میں ہوں گے۔‘

شہزادہ ہیری اور میگھن پریس کے اسی سیلاب سے بچنا چاہتے تھے۔

میگھن اور ہیری

PA

گذشتہ اکتوبر میں ڈیوک اینڈ ڈچز آف سسیکس نے میڈیا کی زد میں رہنے کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا تھا اور شمالی امریکہ میں رہنے کے حالیہ اعلان میں بھی انھوں نے اسی جانب اشارہ دیا۔

بدھ کے روز انسٹاگرام پیج پر اپنے غیر متوقع بیان میں ان کا کہنا تھا ’یہ جغرافیائی توازن ہمیں اپنے بیٹے کی شاہی روایات کے ساتھ پرورش کرنے کے قابل بنائے گا جس میں وہ پیدا ہوا تھا، اور ساتھ ہی ہمارے اہلخانہ کو اگلے باب پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔‘

کیا وہ ٹورونٹو میں رہیں گے؟

کئی برسوں سے کینیڈا کے ساتھ میگھن کے قریبی تعلقات ہیں حالانکہ پیدائشی طور پر وہ امریکی شہری ہیں اور ان کی والدہ کیلیفورنیا میں رہتی ہیں۔

ٹیلی ویژن سیریز سوٹس کی شوٹنگ کے دوران چھ سال تک وہ ٹورنٹو میں مقیم رہیں۔ شہزادہ ہیری بھی انھیں سیٹن گاؤں کے گھر میں ملنے گئے تھے اور سنہ 2017 میں شہر میں منعقد ہونے والی انویکٹس گیمز کے دوران میگھن شہزادہ ہیری سے ملیں۔

برطانیہ منتقل ہونے کے بعد بھی ٹورنٹو سے ان کے تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔

ان کی ایک قریبی دوست، جیسکا مولرونی، سابق وزیراعظم کے بیٹے بین ملرونی کے ساتھ ٹورنٹو میں رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے تین چھوٹے بچے شہزادہ ہیری اور میگھن کی شادی کی تقریب میں بھی شامل تھے۔

ایسی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس ہفتے میگھن اور شہزادہ ہیری کے برطانیہ دورے کے دوران شہزادہ آرچی نے مولرونی خاندان کے ساتھ قیام کیا لیکن ان قیاس آرئیوں کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔

میگھن اور ہیری

PA Media

کینیڈا میں ایسا کیا خاص ہے؟

کینیڈا شاہی جوڑے کو ایسا ماحول دے سکتا ہے جس میں ان کی نجی زندگی میں غیر رسمی مداخلت نہ ہو اور جو انھیں برطانیہ میں میسر نہیں تھا۔

اگرچہ کینیڈا کے ذرائع ابلاغ نے یقینی طور پر یہاں ان کے معاملات میں گہری دلچسپی لی ہے لیکن کینیڈا میں برطانیہ اور امریکہ جیسا ٹیبلوئڈ کلچر یا پاپاپرازی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں ایسی بے شمار جگہیں ہیں جہاں وہ کیمروں کی چمک سے چھپ کر رہ سکتے ہیں۔

جنگل میں عجیب و غریب لکڑی کے کیبن کے بارے میں مت سوچیں۔۔ درختوں سے گھری ہوئی قدیم جھیلوں پر پُرتعیش جائیداد کا سوچیں۔۔ جن تک پہنچنے والا راستہ اتنا گندہ ہے کہ فوٹوگرافروں کے قافلے کے لیے ان کا پیچھا کرنا مشکل ہو گا۔

وینکوور جزیرے میں چھ ہفتوں کے دوران جوڑے کی ایک بھی پاپارازی تصویر کا نہ ملنا ضرور کچھ بتاتا ہے۔

https://twitter.com/JustinTrudeau/status/1208204420959391746?s=20

کینیڈا کو اپنا گھر بنانے والا یہ پہلا شاہی جوڑا نہیں ہو گا۔

پرنس ہیری کے چچا، پرنس اینڈریو جب جیفری ایپسٹائن کی گرفتاری اور خود کشی کے بعد عوام کی نظروں میں تھے، انھوں نے بھی چھ ماہ لیکفیلڈ کالج سکول میں گزارے اور وہاں سے جانے کے بعد بھی سکول کمیونٹی سے قریبی تعلقات برقرار رکھے۔

کنناٹ کی شہزادی پیٹریسیا، ملکہ وکٹوریہ کی پوتی کے والد شہزادہ آرتھر جب گورنر جنرل مقرر ہوئے تھے، تب وہ بھی کینیڈا میں مقیم رہیں۔ وہاں انھیں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ان کی تصویر سنہ 1917 میں جاری کردہ ایک ڈالر کے نوٹ پر بھی چھاپی گئی تھی۔

درحقیقت 1952 سے پہلے کینیڈا کے تمام گورنر جنرل برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ایسی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید شہزادہ ہیری اس روایت کو برقرار رکھیں۔

سنہ 2018 میں نیشنل پوسٹ کے لیے تحریر میں ٹرسٹن ہاپر نے یہ تجویز دی تھی کہ ڈیوک آف سسیکس کو یہ عہدہ لینے کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ کینیڈا میں گورنر (اپنے نمائندے) کا انتخاب وزیراعظم کے مشورے پر ملکہ کرتی ہیں۔

میگھن اور ہیری

انھوں نے لکھا ’گورنر جنرل کی ملازمت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے لیے ہوشیار، پرعزم کینیڈین کو ایک محل میں پابند کر دیا جاتا ہے جہاں انھیں ان کا کام کرنے کے لیے سخت ہدایات کے زیرِ اثر رکھا جاتا ہے۔‘

’شہزادہ ہیری نے اپنی ساری زندگی سکیورٹی اور استحقاق کے غیر حقیقی بلبلے میں گزاری ہے جہاں معمولی سا تعصب بھی ڈیلی میل کو ایک ہفتہ کی شہ سرخیاں دے دیتا ہے۔ اگر دنیا میں ایسا کوئی خاندان ہے جس کے پاس بے پناہ طاقت ہو لیکن انھوں نے کبھی اسے استعمال نہ کیا ہو تو وہ ہاؤس آف ونڈسر ہے۔‘

رواں ہفتے کینیڈا کے پوسٹ میڈیا اخبار کے لیے کیے گئے ایک پول میں یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد کینیڈین ان کے گورنر جنرل بننے سے راضی ہوں گے۔

شاہی جوڑے کو جس چیز کا خیال رکھنا ہو گا، وہ امیگریشن قوانین ہیں۔ کینیڈا دولتِ مشترکہ کا بھی حصہ ہے اور شہزادہ ہیری کی دادی ملکہ برطانیہ ریاست کی سربراہ ہیں، اس لیے وہ بھلے ہی کرنسی پر ان کا چہرہ دیکھیں گے مگر وہ اس کے شہری نہیں ہیں۔

ایک برطانوی شہری کے طور پر شہزادہ ہیری سال میں چھ ماہ سیاح کے طور پر کینیڈا میں گزار سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ عرصہ انھیں گزارنا ہو تو انھیں ویزا کے لیے درخواست دینا ہو گی۔ امریکی شہری کے طور پر انھی قوانین کا اطلاق ان کی اہلیہ پر بھی ہوتا ہے۔

کینیڈین کیا سوچتے ہیں؟

جب بی بی سی نے یہ انکشاف کیا کہ شاہی محل کو اپنی زیادہ تر شاہی ذمہ داریوں سے مبرا ہونے کے فیصلے اور مالی طور پر خودمختار ہونے کی خواہش سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا، تو تب سے برطانیہ میں اس جوڑے پر تنقید کی جا رہی ہے۔

ڈیلی میل میں لکھتے ہوئے پیرز مورگن نے کہا کہ جوڑا ’شاہی زندگی کی تمام خصوصیات چاہتا ہے مگر کوئی بھی مشکل اور بیزار کن حصے نہیں، اور وہ جس طرح بھی چاہیں اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کا استحقاق رکھنا چاہتے ہیں۔‘

میگھن اور ہیری

مگر کینیڈین میڈیا نے نسبتاً فیصلہ کُن دوستانہ لہجہ اختیار کیا ہے۔

گلوب اینڈ میل میں این ڈوناہیو نے خوشی کا اظہار کیا کہ جوڑا کینیڈا منتقل ہورہا ہے اور شاہی زندگی کی گہما گہمی سے دوری اختیار کرنے کے ان کے فیصلے کو ’پریوں کی کہانی جیسا اختتام‘ قرار دیا۔

’دوری اختیار کرنے کے میگھن اور ہیری کے اس فیصلے نے اس طرح کی تبدیلی کو ہوا دی ہے جس میں سب جیت جاتے ہیں۔ انھوں نے اس ادارے کے خاتمے کے آغاز میں مدد دی ہے جسے عمومی طور پر ایک تاریخی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔ اور انھوں نے ایک نہ سمجھ آنے والے چیز کو سرِ عام ترک کیا ہے، اپنے اخراجات اپنے طریقے سے پورے کرنے کے لیے۔ یہ ایک دلحرانہ قدم ہے۔ ‘

مگر ہر کوئی اتنا پرجوش نہیں ہے۔

جمعے کو مونارکسٹ لیگ آف کینیڈا نے شہزادہ ہیری اور میگھن کو خبردار کیا کہ ’ایک نئے اور ہائبرڈ کردار کو اپنانے کی ان کی خواہش، جس میں ان کی شاہی حیثیت کے ساتھ ان کی شخصی آزادی بھی شامل ہو، اس کے لیے کوئی بھی عوامی حمایت ایسی صورت میں فوراً غائب ہو جائے گی اگر نادانستہ طور پر بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ انھوں نے کسی بھی انداز میں ملکہ کی ہتک کی ہے، جو توجہ کی بالکل طلبگار نہیں، اور جن کا مقصد ان کے فرائض ہیں۔‘

مگر عمومی طور پر کینیڈین اس خیال پر نہایت خوش ہیں اور وہ انھیں اپنے پاس رہنے پر قائل کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کو تیار ہیں۔

کافی اور ڈونٹس بنانے والی کمپنی ٹِم ہورٹنز نے انھیں زندگی بھر کے لیے مفت کافی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔

اس پیشکش پر بذاتِ خود کافی تنقید ہوئی ہے۔

کمپنی کی چند فرنچائزوں پر سٹاف کی اجرتوں اور بے گھر افراد سے کمپنی کے سلوک پر تنقید ہوئی ہے اور کئی لوگوں نے ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے ٹِم ہورٹنز سے کہا کہ ان کا پیسہ عوام کو جانا چاہیے، اس جوڑے کو نہیں۔

ٹوئٹر صارف ایرین کارسن ڈی وولف نے لکھا، ’واہ، ناسمجھی کی مثال دیکھیں۔ امیر لوگوں کو مفت چیزیں دینے کے بجائے پہلے اپنے سٹاف کو زندگی کے لیے ضروری اجرت تو دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp