انڈین وزیر اعظم نریندر مودی: شہریت کا ترمیمی قانون ان اقلیتوں کے لیے ہے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے


انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ مغربی بنگال کے دوسرے دن طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریت کا ترمیمی بل ان اقلیتوں کے لیے ہے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے اور اب پاکستان کو جواب دینا ہو گا کہ گذشتہ 70 برسوں میں وہاں اقلیتوں پر ظلم کیوں کیا گیا۔

انڈین وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) پر بی جے پی حکومت کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون کسی کی شہریت ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ دینے کے لیے ہے۔

نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ’اتنی وضاحت کے باوجود کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر سی اے اے کے بارے میں مسلسل ابہام پھیلایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اس پر آواز ہمارا نوجوان ہی اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم شہریت کے قانون میں یہ ترمیم نہ کرتے تو نہ تو یہ متنازع ہوتا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا کہ پاکستان میں اقلیتوں پر کیسے مظالم ہوئے۔‘

انھوں نے کہا کہ اب پاکستان کو جواب دینا ہو گا کہ گذشتہ 70 برسوں میں اقلیتوں پر ظلم کیوں کیا گیا؟ ’مہاتما گاندھی نے جو کہا تھا ہم وہی کر رہے ہیں۔ ہم نے شمال مشرقی انڈیا کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں تاکہ ان کی بنیاد متاثر نہ ہو۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘شہریت کا قانون بی جے پی کی نفرت کی سیاست کا ایجنڈہ‘

انڈین فوجی سربراہ کا بیان محض شعلہ بیانی ہے: پاکستان فوج

وزیر اعظم مودی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ قانون راتوں رات نہیں بنایا ہے۔ یہ قانون شہریت چھیننے کے لیے نہیں بلکہ دینے کے لیے ہے۔ سی اے اے ان اقلیتوں کے لیے ہے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے۔ کیا ہمیں انہیں شہریت نہیں دینی چاہیے؟ کیا ہم انھیں مرنے کے لیے پاکستان بھیج دیں؟‘

بنگلہ دیش اور افغانستان کا نام نہیں لیا

عبدالمومن

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ دونوں نے گذشتہ ماہ انڈیا کا دورہ رد کر دیا (تصویر میں وزیر خارجہ عبدالمومن)

شہریت کے ترمیمی ایکٹ میں 31 دسمبر 2014 سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی چھ اقلیتوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے، لیکن وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں صرف پاکستان پر تنقید کی۔ انھوں نے بنگلہ دیش اور افغانستان کا نام نہیں لیا۔

این آر سی اور سی اے اے کے حوالے سے بنگلہ دیش اور انڈیا کے تعلقات میں کشیدگی ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ اس سے قبل انڈیا کا دورہ منسوخ کر چکے ہیں۔ اس سے قبل بنگلہ دیش نے کہا تھا کہ ان کے یہاں اقلیتوں پر تشدد نہیں کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ڈاکٹر اے کے عبد المومن نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مظالم کے الزام پر کہا کہ ’بنگلہ دیش میں ہماری حکومت میں اقلیتوں پر کوئی جبر نہیں ہوا۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ فوجی حکمرانی اور دیگر حکومتوں کے دور میں اقلیتوں پر چھوٹے پیمانے پر ظلم ہوا ہے۔ سنہ 2001 میں اقلیتوں کے ساتھ ہماری پارٹی کے کارکنوں پر بھی ظلم کیا گیا۔‘

وزیر خارجہ عبدالمومن نے یہ بھی کہا کہ انڈیا کی کچھ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے این آر سی میں بنگلہ دیش کا نام لے رہی ہیں۔

بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت بی این پی بھی انڈیا میں این آر سی اور سی اے اے کا معاملہ اٹھا رہی ہے۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے جنرل سکریٹری مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا ہے کہ انڈیا کی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (بنگلہ دیش) کی آزادی اور خودمختاری کے لیے خطرہ ہے۔

مغربی بنگال میں مخالفت

نریندر مودی سنیچر کی رات ہاورہ کے رام کرشن مشن ہیڈ کوارٹر میں ٹھہرے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بیلور مٹھ کسی زیارت گاہ سے کم نہیں ہے۔ آج سوامی ویویکانند کی یوم پیدائش ہے اور اس موقع پر انڈیا میں نوجوانوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سی اے اے پر کنفیوژن پھیلائی جا رہی ہے اور صرف نوجوان اسے دور کر رہے ہیں۔

سی اے اے کے تعلق سے وزیر اعظم کے مغربی بنگال دورے کی مخالفت بھی ہوئی اور کولکتہ کے کئی مقامات پر لوگوں نے وزیر اعظم مودی کے دورے کی مخالفت کی۔

کولکتہ کے دھرم تللہ میں مظاہرین بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ زیادہ تر مظاہرین کا تعلق کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔ حکمراں جماعت ترنمول کانگریس کی طلبہ یونٹ بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔

سنیچر کے روز جب وزیر اعظم مودی کولکتہ پہنچے تو انھوں نے وزیر اعلی ممتا بنرجی سے بھی رسمی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد ممتا بھی سی اے اے مخاللف مظاہرے میں شامل ہونے چلی گئیں۔

مغربی بنگال میں بہت سے لوگوں نے وزیر اعظم مودی اور سی ایم ممتا کی ملاقات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

تاہم ممتا نے ملاقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’جب وزیر اعظم بنگال آئے تو یہ ایک اخلاقی ملاقات تھی۔ میں نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ بنگال کے عوام سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کو قبول نہیں کریں گے۔ میں نے ان سے دوبارہ غور کرنے کے لیے کہا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp