اب شیخ رشید کا رابطہ ووٹر سے نہیں بلکہ ٹک ٹاک سٹارز سے ہے


کہتے ہیں کہ جن میاں بیوی کے درمیان اچھی ”انڈر سٹینڈنگ“ ہوتی ہے، وہ ازدواجی زندگی کے تیس چالیس سال بعدبہن بھائی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ان کی سوچ اور دلوں کی ہم آہنگی ان کے چہروں میں ایسی مماثلت پیدا کر دیتی ہے کہ دیکھنے والوں کو ان کے بھائی بہن ہونے کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔

پاکستان میں اچھے سیاستدان وہی قرار پاتے ہیں جو لیڈر کے انداز اپنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیڈر یہی سمجھتا رہتا ہے کہ یہ ذہنی اور دلی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے لیکن سیاستدان یہ سوچ سوچ کے پریشان ہوتا رہتا ہے کہ آئندہ نہ جانے کس مزاج اور قماش کا لیڈر نصیب ہو گا اور اس کے خصائل اپنانے میں کیا کیا دشواریاں پیش آ سکتی ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب فرزند راولپنڈی کا خطاب پانے والے شیخ رشید احمد میاں محمد نواز شریف کے سب سے لاڈلے وزیر تھے۔ راولپنڈی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے منہ مانگے فنڈز کی فراہمی تو ایک طرف، شیخ رشید تو نواز شریف کے ساتھ اپنی گہری قربت کا دوسروں کو یقین دلانے کے لئے سر عام ایسی حرکات بھی کر دیتے تھے جس کی توقع محبوب کے ساتھ ہی کی جا سکتی ہے۔

لیڈر لیڈر ہوتا ہے کوئی محبوب نہیں کہ بڑھاپے تک پہنچ کر بھی محبوب کو یاد کرتے ہوئے ٹھنڈی آہیں بھرتا جائے۔ لیڈر وہ نہیں ہوتا جسے آپ پسند کرتے ہیں، لیڈر تو وہ ہوتا ہے جس کی ملک پہ لیڈری چلتی ہو۔ سچا لیڈر وہی ہوتا ہے جس کے نام کی مالا سرکار بھی جپتی ہو۔ انسان کتنا بھی دل پھینک کیوں نہ ہو، اس کے زندگی بھر اتنے محبوب نہیں ہو سکتے جتنے ہمارے علاقائی سیاستدانوں کو لیڈر بھگتانے پڑتے ہیں۔ بھگتانے کیا پڑتے ہیں، ان کے رنگ میں رنگنا پڑتا ہے۔ کبھی لیڈر کے عشق میں لال ہونا پڑتا ہے اور کبھی سیاہ۔ یہ تو لیڈر کی پسند ہے کہ اسے کون سا رنگ بھاتا ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب مشرف کا اقتدار حالت کمزوری کا شکار ہو چلا تھا۔ الیکشن قریب تھے۔ الیکشن مہم کا موسم تھا۔ شیخ رشید احمد اپنے حلقے میں کشمیریوں کے ایک محلے میں اپنی برادری کے دعوے کے ساتھ انتخابی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایک گھر میں موجود تھے۔ شیخ رشید احمد انہیں اپنے لوگ سمجھتے ہوئے مشرف حکومت کی ایسی باتیں بھی سنا رہے تھے کہ جنہیں عموما کہا نہیں جاتا۔ اس وقت شیخ صاحب کا انداز تکلم دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے بذات خود جنرل پرویز مشرف گفتگو فرما رہے ہوں۔

وہی تحکمانہ لہجہ، اپنی بات کو حتمی معاملہ قرار دینے کا انداز۔ ہم تو شیخ رشید سے ملاقات کر رہے تھے، جنرل پرویز مشرف کے انداز دیکھ کر کوفت سی ہونے لگی۔ شیخ صاحب سے عرض کیا کہ آپ عوامی رہنما ہیں، آپ اپنے لیڈر کے جس انداز میں گفتگو کر رہے ہیں، وہ ایک عوامی لیڈر کے شایان شان نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ عادت اچھی ہو یا بری، جاتے جاتے ہی جاتی ہے۔ چناچہ شیخ رشید کو جنرل پرویز مشرف کے انداز لیڈری کی ”باڈی لینگویج“ سے چھٹکارا پانے میں چند سال لگ ہی گئے۔

کبھی یہ شیخ رشید کا خاصہ تھا کہ وہ حکومت میں ہونے کے باوجود اپنے حلقے کے لوگوں سے دوری اختیار نہیں کرتے تھے۔ لیکن برا ہو زمانے کی بدلتی قدروں کا کہ اب ووٹر کی شیخ صاحب تک رسائی نہیں لیکن بھدی آواز اور نچلی سطح کی سوچ لیکن دلربانہ ادائیں رکھنے والی ”ٹک ٹاک سٹار“ کے نہ صرف ان سے رابطے بے نقاب ہوتے ہیں بلکہ ”ٹک ٹاک“ بے بی رہنماؤں کی عصمتوں سے یوں کھیلتی ہے کہ جیسے فلموں میں ولن عصمت دری کرنے کے بعد فخریہ قہقہے لگاتا ہے۔

”ٹک ٹاک سٹار“ یوں کسی کی گود میں بیٹھنے کی تصاویر مارکیٹ میں پھینکتی ہے کہ کئی دوسرے حکومتی عہدیدار بھی اس کے چنگل میں یہ سوچ کر پھنستے چلے جاتے ہیں کہ شاید اس حکومت میں عزت و وقار کے یہی پیمانے ہیں۔ اسی لئے تو سب مشترکہ اثا ثہ سمجھتے ہوئے، یوں ایک ہی چشمے سے فیض پا تے ہیں کہ جیسے انصاف پسند بادشاہ کے دور میں گدھے، گھوڑے، شیر اور گیدڑ ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔

لیڈر بدلتے رہتے ہیں لیکن مقامی رہنما اپنے حلقے میں موجود رہتا ہے، سرکاریت کا درجہ پانے والے ہر نئے لیڈر کی آواز سے ہم آہنگ ہونے کی یوں کوشش کرتا ہے کہ بقول شاعر

اک تیرا انداز سخن بھلانے کی خاطر

ہر چہرے میں تجھے دیکھنا اچھا لگتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments