مجبوریوں کی قبروں پر روتے مفاہمتی سیاستدان


قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظورہوناپاکستان کی تاریخ کا ایک اہم ترین باب بن چکا ہے۔ ملک کے مقتدر ایوانوں سے پاک افواج نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کو قانونی شکل میں ڈھال کر جمہوری اداروں کی لاج رکھ لی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس بل کو غیر مشروط حمایت سے پاس کرا کے اپنی فوج سے اظہار یکجہتی کا ثبوت دیا۔ کاش حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ہمارے سیاستدان حقیقی معنوں میں اپنی فوج کے ساتھ ایک پیج پر ہوں۔

کاش سیاستدانوں کے منہ سے یہ سننے کو نہ ملتا کہ ”ہم ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے“ یا سیاستدان ”ووٹ کو عزت دو“ جیسا سخت بیانیہ سڑکوں پر لے کر نہ نکلیں۔ فوج ہمارا اپنا با اعتماد اور طاقتور ادارہ ہے جس کی وجہ سے ہم آزادی سے اور امن کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں۔ یہ پاک فوج کا ہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے پاکستان سے دہشتگردی جیسے عفریت کا قلع قمع کیا اور عوام کی محبتیں سمیٹیں۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے عوامی نمائندگان، سیاسی لیڈر شپ اپنی نا اتفاقیوں اور ناچاقیوں کی وجہ سے روز بروز روبہ زوال ہوتی جا رہی ہے۔ عوام جمہوری ملک میں غیر جمہوری کارروائیوں کو بے بسی سے کیوں زیر بحث لانے پر مجبور ہیں۔ اس موضو ع پر عوام اور اداروں کے درمیان ابہام دور کرنے کے لئے میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میڈیا پرصحافی تحقیقات کر کے عوام کو بتائیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے بیانئے پر کیوں قائم نہیں رہتیں۔

کیوں عمران خان جیسا سچا انسان بات بات پر یو ٹرن لے لیتا ہے۔ کیوں نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کے بعد اپنے ہی بیانئے کا گلا گھونٹ دیا۔ آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی حمایت میں اتنی جلدی کیوں کی گئی۔ نواز شریف کی طرف سے غیر مشروط حمایت سے ان کی پارٹی کو نقصان پہنچنا تھا اس حساس فیصلے کا نواز شریف کو ادراک تھا لیکن پھر بھی وہ کون سی مجبوری تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے یا سب ٹھیک ہے اوران ایشوز کومحض میڈیا کی ڈارلنگ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

سات دسمبر کو پاکستان مسلم لیگ ن کی لندن میں ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں جماعت کے اہم ترین اراکین نے شرکت کی۔ میاں نواز شریف نے جماعت کے اہم ترین اراکین سے بات کرنے سے پہلے حلف لیا کہ وہ میٹنگ میں کی گئی کسی بھی بات کاکسی سے ذ کر نہیں کریں گے۔ میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ چالیس سال سے پارٹی کے ساتھ وفاداری کا دم بھرنے والے اپنے قریب ترین لوگوں سے میاں نواز شریف نے کیوں حلف لیا؟ اور کیا حلف اٹھانے والوں میں سے کسی ایک نے بھی کوئی ایک لفظ نہ بولا اور پاکستان آ کر ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا جا تا رہا کہ یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے۔

حلف اٹھانے والے اگر حق پر بول نہیں سکتے، ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہہ سکتے تو انہیں رونے دھونے اور اپنی مجبوریاں گنانے کے بجائے استعفی دینا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ، احسن اقبال ا اور شاہد خاقان عباسی نے اپنی قیادت کے ساتھ اعلان بغاوت تو نہیں کیا مگر انہوں نے ترمیمی بل میں حصہ بھی نہیں لیا۔ پرویز رشید سینٹ کے اجلاس میں نہیں گے، بلکہ انہوں نے تو اپنی ٹویٹ میں حسن تاج رضوی کایہ شعر لکھاکر دل کی بھڑاس نکالی کہ

ان تند ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتے

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

ن لیگ کی لندن ہونے والی اہم بیٹھک پر اگر سب نے قیاس آرائیاں ہی کرنی ہیں تو اس پر مثبت بات بھی کہی اور سوچی جا سکتی ہے۔ مثبت سوچ پر عوام کی ذہن سازی کی جائے تو ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ لڑائی پر گرما گرم سیاسی بحث خود بخود ختم ہو جائے۔ مگر پاکستان میں تو ایشوز تخلیق کر کے انہیں ایک دوسرے کی تضحیک کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتی جماعت نے تو آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل کی حمایت کرنی ہی تھی۔ بل پر بلاول بھٹو زرداری نے تین ترامیم کی شفارشات پیش کیں تھی لیکن اسمبلی میں ان پر بحث نہیں کی گئی۔

دوسرا آصف علی زرداری نے بلاول کو منع کر دیا لہذا پیپلز پارٹی نے پس و پیش کے بغیر آرمی ایکٹ کی حمایت کی۔ ن لیگ جو سب سے زیادہ جذباتی موقف کے ساتھ میدان میں اتری تھی پارٹی کے اندر اور باہر بہت بحث ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف نے اپنے بیانئے پر سمجھوتہ کر لیا ہے تو یہ قبل از وقت ہو گا کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ تھا اور اس کی حمایت کے لئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی ن لیگ کے ارکان سے ”مودبانہ“ ملاقات اور نواز شریف کو ایک اہم فون کال نے اپنے سخت اور اٹل موقف سے پیچھے ہٹنے پراور سمجھوتے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں ن لیگ میں گرما گرم بحث اور اپنی قیادت پر تنقید ہو رہی ہے۔

سول سوسائٹی میڈیا اور عوام نے کسی قانون سازی میں اتنی زیادہ دلچسپی پہلے کبھی نہیں لی۔ لیکن یہ دیوار پر لکھا گیا ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں نے عوام کی امنگوں کے خلاف جا کر یہ ترمیم کی ہے۔ یاتوسیاستدان بڑے مجبور لوگ ہیں یا سیاستدان عوام کو بتاتے کچھ اورہیں اور کرتے و ہی ہیں جوان کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔

یہ بھی ایک جمہوری عمل کا حصہ ہے کہ ن لیگ کے کچھ رہنما اورسیاسی کارکنان آج بھی اور آنے والے انتخابات تک میاں نواز شریف سے پوچھتے رہیں گے کہ وہ کون سے عوامل اور مجبوریاں ہیں جنہوں نے آپ کے اٹل بیانئے کو موم کر دیا۔ میاں نواز شریف کو اتنا تو علم تھا کہ ان کی حمایت نہ کرنے اور ووٹ نہ کرنے کے باوجود آرمی ایکٹ کا ترمیمی بل سادہ اکثریت سے پاس ہو جائے گا، پھر انہوں نے مولانا فضل الرحمن اور حاصل بزنجوکی طرح خاموشی اختیار کیوں نہیں کی کیا حاصل بزنجو سے رابطہ کرنے والوں نے تین بار رابطہ نہیں کیا، اس کے باوجود انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ سیاستدان اور کارکنان تو سینہ تان کر مشرف پر یہی تنقید کرتے آئے ہیں کہ مشرف تو ایک کال پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ آج میاں صاحب آپ نے ن لیگ کوسب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ڈکٹیٹر مشرف کی ایک کال والی سنت پر عمل کیوں کیا۔ ن لیگیوں کے ان سوالات کا جواب تو آنے والا وقت ہی بہتر دے سکے گا۔

شہباز شریف سمیت ن لیگ کے زیادہ تر ارکان حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک ہیں۔ میاں نواز شریف بھی ایک وقت حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک تھے۔ انہوں نے تین بار نظریاتی بننے کی کوشش کی اوران کے منہ سے تینوں بار جملہ سننے کو ملا مجھے کیوں نکالا۔ مریم نواز شریف کا یہ کہنا کہ اس فیصلے میں مجھ سے رابطہ نہیں کیا گیا اور نواز شریف کو مس گائید کر کے ان کے بیانئے کو نقصان پہنچایا گیا۔ مریم نواز کا یہ بیان سمجھ سے بالا ہے کیونکہ مریم نواز کا بیانیہ ان کے والد نواز شریف کا ہی بیانیہ ہے اورحمایت کا فیصلہ میاں نواز شریف کا اپناتھا۔

اس فیصلے میں ایک بات غور طلب ہے کہ میاں نواز شریف بھی سمجھ چکے ہیں کہ اب پاکستان کی کوئی بھی طاقت انہیں کسی صورت اقتدار کی مسند پر بیٹھا دیکھ ہی نہیں سکتی۔ اس کے باوجود وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کب تک اقتدار سے باہر رہ سکتی ہے۔ کبھی نہ کبھی تو عوام اور ادارے عمران خان سے تنگ آئیں گے، لہذا حقیقت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے شہباز شریف کو آگے آنے کا موقع دیا ہے۔ کچھ بھی ہو نواز شریف کے ساتھ مریم نواز آنے والے انتخابات تک خاموش ہی رہیں گی۔ کیونکہ پہلے بھی نواز شریف نے جبری جلاوطنی بھگتنی اور الیکشن کے وقت میاں نواز شریف پاکستان آ ہی گئے۔ اس لئے اب کہا جانا شروع ہو چکاہے کہ پارٹی جیتے، وزیر اعظم جو بھی ہو، ن لیگ میں ووٹ تو میاں نواز شریف کے نام پر ہی پڑتا ہے۔

پاکستان میں اگر سیاست اپنے اپنے مفاد کے لالچ میں مفاہمت کا ہی نام ہے تو خدارا عوام کو بڑی بڑی امیدیں نہ دکھاؤ انہیں ان کی ووٹ کی عزت کا رکھوالا بن کے نہ دکھاؤ۔ جو پاکستان میں پچھلے 72 سال سے ہو رہا ہے وہ عوام کی نظر سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ لہذا مفاہمت کرو سمجھوتے کرو اوراپنی مجبوریوں کی قبر پر روتے روتے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرو، نیب کے قوانین میں ترمیم کرو، پھر اپوزیشن، حکومت اور فوج کا ایک پیج پر ہونے کا اعلان کرو، اس کے بعد اپوزیشن پر انتقامی ہاتھ شفقت بھرے لہجوں میں تبدیل ہوتا نظر آئے گا۔ گرفتار سیاسی شخصیات پر بھی نظر کرم ہو جائے گا۔ مریم نواز کی ضمانت توپہلے ہی ہو چکی، جلد وہ لندن روانہ ہو جائیں گی۔ اور آخر میں سب ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے۔ عوام کا کیا ہے وہ نعرے لگانے کے لئے پیدا ہوئے ہیں، بڑی دلجمعی اور محبت کے ساتھ گلاپھاڑ پھاڑ کے نعرے لگاتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments