ایران امریکہ کشیدگی کم کرنے کی پاکستانی کوشش کا آغاز


پاکستان نے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے مصالحتی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے مرحلے میں اتوار کو ایک وفد کے ہمراہ ایران پہنچے ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران کے شہر مشہد روانگی سے قبل ایئرپورٹ پر سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات کے تناظر میں خطے کے امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری کوشش کی ضرورت ہے اور کشیدگی میں کمی لانے اور مسائل کے پرامن حل کے لیے وہ ایران کی قیادت سے بات چیت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں موجودہ صورتحال پر پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کریں گے۔

دفتر خارجہ کے مطابق وفاقی وزیر تہران میں اپنے ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات کریں گے۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور وزارت خارجہ کے سینئر حکام بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

محمدبن سلمان، حسن نصراللہ، نیتن یاہو کیا سوچ رہے ہیں؟

شاہ محمود: کسی علاقائی تنازعے میں فریق نہیں بنیں گے

خیال رہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران یہ پہلا غیر ملکی وفد ہے جو ایران پہنچا ہے۔

دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شاہ محمود قریشی ان ممالک کو آگاہ کریں گے کہ پاکستان سیاسی اور سفارتی راستوں سے تنازعات کے حل کی کوششوں میں مدد کرنے کو تیار ہے۔

اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ انہوں نے خطے میں حالیہ کشیدہ حالات کے پیشِ نظر وزیرخارجہ کو ایران، امریکہ اور سعودی عرب کے دوروں کی ہدایت کی ہے۔

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران دورے کے بعد وزیر خارجہ 13 جنوری کو سعودی عرب جائیں گے تاہم ان کے امریکہ جانے سے متعلق فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 3 جنوری کو امریکہ نے عراق میں ایک ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا تھا جس کے جواب میں ایران نے بھی عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا تھا۔

اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان حالات اس قدر کشیدہ ہوئے کہ جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ فوجی اڈوں کے قریب میزائل حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں لگانے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

جبکہ ایران نے اس کشیدگی کے دوران ایک مسافر طیارے کو غلطی سے نشانہ بنانے کا اعتراف کیا۔ اس حادثے میں جہاز کے عملے اور مسافروں سمیت 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی فوجی اور سیاسی حکام کی جانب سے پاکستان سے رابطے کیے گئے ہیں جن میں امریکی وزیرِخارجہ کا آرمی چیف کو فون بھی شامل ہے۔ جس کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان مصالحتی کوششوں کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹر پر کہا تھا کہ انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ‘ریاض، تہران اور واشنگٹن کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی ہدایت کی ہے’۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا تھا کہ ‘چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ان ممالک کے فوجی رہنماؤں سے ملاقات کریں۔‘

اسی بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر ثروت رؤف کہتی ہیں کہ پاکستان کے پاس اس وقت کسی بھی دوسرے آپشن کا استعمال خود ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، ایسی صورت میں مصالحت کا کردار ادا کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ثالثی کی کوششوں کو سنجیدہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

’اس کی ایک وجہ تو دونوں ملکوں کی سرحدیں ہی ںہیں مذہبی اعتبار سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان واحد مسلم ملک جو ایٹمی طاقت ہے، یہ حقیقت پاکستان کے کردار کو بہت مضبوط بناتی ہے۔ اسی لیے پاکستان کی مصالحتی کوششوں کو یہ ممالک سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ثروت کے مطابق ’پاکستان فریقین میں مصالحت اور بات چیت کے ذریعے تنازع حل کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ کوئی اور کردار ادا نہیں کر سکتا کیونکہ ہم معاشی اعتبار سے اس مقام پر نہیں کہ کسی ملک کو کوئی آفر دے سکیں اور نہ ایسی پوزیشن میں ہیں کہ کسی ایک کیمپ کا حصہ بن جائیں۔‘

’پاکستان کے لیے غیرجانبدار رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ کسی بھی ایک بلاک کا حصہ بننا ملک کے لیے خطرناک ہو جائے گا۔‘

دوسری جانب کل یعنی پیر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ریاض پہنچنے پر سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہذادہ فیصل بن فرحان بن آل سعود سے بھی ملاقات کریں گے۔ سعودی ہم منصب سے ملاقات میں وزیر خارجہ امریکا ایران کشیدگی سمیت علاقائی امن و استحکام کے موضوعات پر تبادلہ خیال کریں گے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp