پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا کریک ڈاؤن!


پنجاب کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اچانک گرینڈ آپریشن کرکے ماہرین کو حیران اور پرائیویٹ سیکٹر کو پریشان کردیا۔ حالانکہ ایک طبقہ یہ مسلسل پراپیگنڈا کر رہا تھا کہ وزیر موصوف کا جھکاؤ پرائیویٹ سیکٹر کی جانب زیادہ ہے مگر حالیہ فیصلے سے گنگا الٹی بہہ گئی۔

 پنجاب کی معروف یونیورسٹیوں، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب  (UCP)، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی  (UMT)، سپیرئیر کالجز، قرشی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لاہور، ہجویری یونیورسٹی اور نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس کے مختلف شہروں کے کئی سب-کیمپسز کو یونیورسٹی ایکٹ کے برعکس کام کرنے پر نئے داخلوں سے روک دیا۔ یوں ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ،

 کیا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس پر عمل کر پائے گا؟

کیا ایچ ای سی پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعاون کرے گی؟

کیا ایجوکیشن اداروں کے پیچھے بڑے بڑے میڈیا گروپ حکومت، وزیر ہائیر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں سرفراز اور قائم مقام سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ساجد ظفر ڈال کو ٹکنے دیں گے؟

 داخل شدہ طلبا و طالبات کا مستقبل خراب تو نہیں ہو گا؟

 کیا ایچ ای ڈی اسے مسلسل مانیٹر کر پائے گی؟

بدقسمتی ہے کہ، بعض معاملات میں ایچ ای سی صحیح مانیٹر نہیں کرتا، پیٹران/ چانسلرز و ایچ ای ڈی آفسز بائی پاس ہوجاتے ہیں، پھر پرائیویٹ یونیورسیاں بھی سیانی ہیں جو “اپرووڈ / پرنسپل کیمپس” سے ڈگریاں جاری کر دیتی ہیں۔

قابل غور یہ بھی کہ، پی ایچ ای سی کی سابق ایڈمنسٹریشن میں سے ضیا بتول صاحبہ اور ڈاکٹر شمسی، اسی طرح ایچ ای ڈی سے طارق حمید بھٹی کو اس بگاڑ کی وجہ قرار دیا جارہا ہے، اور ذرائع کے مطابق 92 ٹی وی/ اخبار گروپ کا کیس بنام یونیورسٹی آف فیصل آباد بھی “گڑبڑ” کا شکار ہے تاہم سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی، وزیر قانون اور وزیر ہائیر ایجوکیشن کا ڈٹ جانا بہرحال قابل تحسین ہے۔

اکثریتی جاری کردہ نوٹیفکیشنز میں جو لکھا گیا وہ یونیورسٹیوں کے ایکٹ 2002، 2004، 2011 کے سیکشن 5 یا 6 (2)کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے۔ یہ سیکشن کچھ یوں ہے کہ :

6۔ Jurisdiction۔– (1) The jurisdiction of the University shall be restricted to the Province of the Punjab۔

 (2) The University shall not open any sub-campus for a period of ten years from the commencement of this Act after which period it may open a sub-campus with the approval of the Chancellor۔

جہاں تک اس فیصلے کا تعلق ہے اسے کوالٹی ایجوکیشن کے لئے مستحسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور دیگر ممالک میں پرائیویٹ سیکٹر باکمال اور لاجواب ہے، پرائیویٹ سیکٹر کے بغیر کسی زیادہ آبادی والے ملک میں تعلیم کو چلانا ممکن نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر شتر بے مہار بن جائے اور اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ لیا جائے یا کوئی یہ سمجھے کہ، میڈیا گروپس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کی بزنس میں شمولیت ہی کامیابی کی چابی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کی کامیابی کا مطلب ہے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قابل استعمال اور اپلائیڈ ریسرچ، انڈسٹریل لنک اور انٹرپرنیول شپ کو فروغ دیں، نہ کہ “ون ونڈو فیس نیکسٹ ونڈو ڈگری” طرز ادارے ہوں یا ہر شہر میں خاص گروپس مناپلی ہی کو مدنظر رکھیں۔ وفاق کی پلاننگ، ڈیویلپمنٹ اور ریفارمز منسٹری کو اس پر بہت پہلے غور کرنا چاہیے تھا۔ حتی کہ جامعہ پنجاب اور کراچی یونیورسٹی میں ” یونیورسٹیز پلاننگ، ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارمز ریسرچ سینٹر و تھنک ٹینک ” ہونا چاہیے جس میں صوبائی ایچ ای سی اور ایچ ای سی کی کولیبوریشن ہو، پروفیسرز، سابق وائس چانسلرز اور قومی و بین الاقوامی سطح کے سائنسدان اس کے ممبرز ہوں۔ یونیورسٹیاں بنانے اور چلانے والے اس کے سیمیناروں، ورکشاپس اور میٹنگز سے استفادہ کریں، اور سیکھیں کہ کوالٹی کنٹرول کسے کہتے ہیں۔

معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ، ایچ ای ڈی آنے والے دنوں مزید سخت فیصلے کرنے والی ہے جس میں بغیر اجازت کے چلنے والے ڈیپارٹمنٹ اور مضامین کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے ان سرکاری یونیورسٹیوں کے حال پر کون غور کرے گا جو سیاسی طور پر بن تو گئیں مگر ان کا معیار اور اعتبار بھی قابل تشویش اور قابل تفتیش ہے، کئی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں نے وہ پی ایچ ڈی بھی کرا دیں جن کی سہولت تھی نہ اساتذہ اور نہ ایچ ای سی سے منظوری۔ اس بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ، ایک نوخیز یونیورسٹی کی الحاق کمیٹی کے چئیرمین کے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی انسپکشن کیلئے فرض کریں پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم انسپکشن کرنے جائے تو ممکن ہے بی ایس اور ایم ایس سی ہی ختم کردے۔ اسی طرح ایک نوخیز یونیورسٹی کے سابق چیئرمین الحاق کمیٹی کا نام ماضی میں اور آج بھی پرائیویٹ یونیورسٹی کی فیکلٹی میں ویب سائٹ کی زینت ہے۔

حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ، ایک اور یونیورسٹی کے سابق قائم مقام وائس چانسلر کی بدعنوانی کا نوٹس ایچ ای ڈی نے لیا ہے۔ اسی طرح ایک اور سرکاری یونیورسٹی کے وی سی کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب انسپیکشن ٹیم نے بدعنوانی کے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ بدقسمتی سے، لاہور کی ایک معروف خواتین یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے متعلق تعلیمی حلقوں میں مشہور ہے کہ وہ آدھا ہفتہ لاہور اور آدھا اسلام آباد گزارتی ہیں حالانکہ یہ ایچ ای ڈی پنجاب کے عرصہ دراز سے نوٹس میں ہے۔ ایسی اور بھی بیسیوں مثالیں ہیں۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے سرکاری یونیورسٹیوں پر بھی نظر رکھی جائے جن کا اکثر سٹاف پرائیویٹ سیکٹر کے پینل پر ہے۔ ترقی اور ذرائع معاش بڑھانے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے مگر اپنے بنیادی ادارے کو داؤ پر لگانے کے درپے نہیں! کہیں ایسا نہ ہو کہ، ایچ ای ڈی کے خوش آئند فیصلوں کو دوسری جانب سرکاری یونیورسٹیوں کی عاقبت نااندیشی یا مافیا پیوند خاک کردے !

اہل نظر کو یاد ہوگا کہ پنجاب کی کچھ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں نے “پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ پراجیکٹ / پروگرام ” کے تحت کچھ کیمپسز بنائے جو اپنی طرز کی ایک انٹرپرنیورشپ تھی مگر اس کو مخصوص مافیا کی “نظر” اور کسی حد تک کمزور ایڈمنسٹریشن نے تباہ کردیا، حالانکہ اس پر نظرثانی کی ضرورت تھی کیونکہ معاملات ابھی ابتدا میں تھے اور وہ آگے جا کر درست اور مفید ہو سکتے تھے۔ چونکہ وہ سب پرائیویٹ سیکٹر کی چھاتی پر مونگ دلنے کے مترادف تھے چنانچہ وہ ختم کرا دئیے گئے۔ اور باقاعدہ اس عمل ہی کو سرے ناقابلِ عمل باور کرا دیا گیا، جس کا ازسرِنو جائزہ آج بھی اشد ضروری ہے۔

“اعداد و شمار کے مطابق وطن عزیز میں تقریبا 192 ادارے وہ ہیں جو ڈگری ایوارڈنگ ہیں، ان میں سے 80 ادارے پرائیویٹ سیکٹر میں اور بقیہ پبلک سیکٹر کا حصہ ہیں۔”۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔”سن 2017 کی ایجوکیشن پالیسی کے مطابق کم ازکم 33 لاکھ طلبا و طالبات کا ہائرایجوکیشن میں لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ، اور خواہش تھی کہ 2018 تک کم ازکم 18 لاکھ کو ہائرایجوکیشن کی زینت بنایا جائے، افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ یہ سب کچھ کرنا اور ہونا باقی ہے، اور اب نظریں لگی ہیں نیا پاکستان پر !”۔ ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت عالم یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ کی نعمت کے باوجود محقق تقریبا 20 سے 25 فی صد جرنلز اور تحقیق ہی تک پہنچ پاتا ہے اور باقی 70 فی صد سے زائد ریسرچ رپورٹس اور تجزیوں تک پہنچنا عام اسکالر کیلئے بہت مشکل اور مہنگا ہے ۔ موجود ڈیجیٹل لائبریریاں ناکافی اور نامکمل ہیں۔” (جنگ کالم، نعیم مسعود – 3فروری2019)

 ہائر ایجوکیشن کی سب سے پتلی حالت کے پی کے میں ہے جس کو حکمران ماڈل صوبہ گردانتے نہیں تھکتے۔ وہاں یونی ورسٹیوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، کئی یونیورسٹیاں محض چند سو اسٹوڈنس پر مشتمل ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کی حکومت کو فکر ہے نہ بیوروکریسی کو۔ بلوچستان یونیورسٹی کی قیادت پر بہت سوالیہ نشان ہیں مگر وہ آج کے نہیں جب وہ فارمیسی کونسل کے ممبر یا محض استاد تھے تب سے سے “مشہور” ہیں۔

 آزاد کشمیر کی ہائر ایجوکیشن ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغ کی طرح ہے، کہ وہاں ہر فیصلہ مشکل اور ناممکن کی شاہراہ پر چل نکلتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ، آزادکشمیر کا مزاج ہے کہ سرکاری نوکریاں اور گاڑیاں انجوائے کرو، وہاں کی یونیورسٹیوں میں انٹرنیشنلزم تو درکنار نیشنلزم کا بھی فقدان ہے، پروفیسرز کی لابیاں تقریروں کے معاملات میں مافیا کا روپ دھار جاتی ہیں۔ میرپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کا کیس متنازع ہوکر عدالتوں میں چلا گیا۔ باغ کی وومن یونیورسٹی کے انٹرویوز ہوئے جس میں مرد بھی امیدوار تھے حالانکہ آزادکشمیر پنجاب کے نقش قدم پر چلتا ہے سو یونیورسٹیوں میں پنجاب خواتین یونیورسٹی ماڈل کو کیوں نہ مدنظر رکھا گیا؟ خواتین یونیورسٹی کی وائس چانسلر خاتون ہی ہونی چاہیے، اگر وائس چانسلر خاتون نہیں ہوسکتی، تو خواتین کی الگ یونیورسٹی بنانے کا کیا فائدہ؟

کسی نئی یونیورسٹی یا خواتین یا کسی بھی یونیورسٹی کو چلانے یا خراب یونیورسٹی کو سدھارنے کا کام صرف وائس چانسلر کا نہیں ہوتا، اس میں ایچ ای سی، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، وزارت اور ضلعی انتظامیہ اور اساتذہ کا برابر کردار ہوتا ہے، پھر عہد حاضر میں وہ یونیورسٹی، یونیورسٹی ہی کیا جو کمیونٹی سنٹر ہی نہ ہو؟ اور جو یونیورسٹی خواتین کے نام پر بنائی گئی ہو اور علاقہ و ملک کیا اگر خواتین ہی کیلئے وہ کمیونٹی سنٹر نہ بنے تو فائدہ؟ سندھ پر دن رات تنقید برائے تنقید کے سلسلہ کو فروغ دینے والے شکار پور کی شیخ ایاز یونیورسٹی ہی کو دیکھ لیں جو قابل تعریف اور قابل تقلید ہے حالانکہ کل تک یہ یونیورسٹی سندھ یونیورسٹی جام شورو کا سب کیمپس تھا۔

پنجاب کا گرینڈ آپریشن قابل ستائش ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایچ ای سی، ایچ ای ڈی، چانسلر آفس، پی ایچ ای سی کے مابین مثالی کوآرڈینیشن ہو، پرائیویٹ سیکٹر کو حکومت اور حکومتی ادارے معاونت سے نوازیں مگر مش رومنگ بڑھوتری کی اجازت نہ دی جائے۔

 نہایت افسوسناک بات یہ بھی کہ، وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب راجہ یاسر ہمایوں سرفراز اور ان کی گورنمنٹ دو تین خود سر سرکاری وائس چانسلرز اور کچھ سابق قائم مقام وائس چانسلرز سے ہنوز “ڈرتے” ہیں اس کا اعتراف بھی سامنے آیا ہے، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سیکرٹیریٹ اور چانسلر آفس راجہ یاسر ہمایوں سرفراز اور دیگر حکومتی اراکین کی ایسے عناصر کی بیخ کنی کے معاملے میں دال نہیں گلنے دیتا، جو قابل مذمت ہے۔

واضح رہے کہ، میں نے 3 فروری 2019 کے اپنے کالم ” ہائر ایجوکیشن کے خواب!” میں عرض کیا تھا کہ :

“پاکستان کے 63 فیصد نوجوانوں میں سے اکثریت کیلئے تحریک انصاف پرکشش ٹھہری تھی ، اور ایک بات واضح رہے کہ اس 63 فی صد میں سے صرف 5 فی صد ہائرایجوکیشن میں ہیں”

بہرحال یہ بھی ضروری ہے کہ برطانیہ و امریکہ ماڈلوں سے نہیں اپنے ایکوسسٹم اور چیلنجز کے مطابق فیصلے کریں، فیصلے کرتے وقت بار بار سوچیں کیونکہ تعلیم ایک حساس معاملہ ہے۔ جدید تقاضوں اور عملی قومی ضرورتوں کے مطابق کل ملا کر سب پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں 3۔3 ملین نوجوان ہونے چاہئیں جبکہ عہد حاضر میں صرف 1۔3 ملین ہیں۔ متذکرہ معاملے میں طلبا و طالبات یا غریب والدین اور تعلیم کو نقصان اور سزا سے بچانا ہوگا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments