سالگرہ مبارک، مورا کامی!


امی، آپ نے امتحان میں اچھے نمبر لانے پہ منہ مانگے انعام کا وعدہ کیا تھا

یاد ہے مجھے، کیا چاہیے

کتابیں

ضرور، میری جان

ہم ریڈنگز پہ تھے!

ہماری صاحبزادی بہت پرجوش نظر آتی تھیں اور اب تحفے کی یاددہانی کراتےہوئے اپنی پسند کی کتابیں خریدنا چاہتی تھیں۔ ہم دل ہی دل میں خوش ہوتےتھے کہ کتاب سے محبت کا پودا پروان چڑھ گیا تھا۔

ہم اردو سیکشن کی طرف تھے جب ہم نے اپنی بھابی فائزہ کو ہانپتے کانپتے اپنی طرف آتے دیکھا،

طاہرہ آپی، وہ شہر بانو کتابیں خرید رہی ہے

جی فائزہ ، مجھے معلوم ہے

لیکن آپی، کیا آپ یہ جانتی ہیں کہ ایک ٹوکری لبالب بھر چکی ہے اور اب دوسری بھری جا رہی ہے

فائزہ بہت حیران تھی کہ اس نے کبھی کسی کو اتنی کتابیں اکھٹی خریدتے نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے اسے بتایا کہ شہر بانو یہ سب تحفے کی مد میں خرید رہی ہے اور ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کے کوئی زیور یا کوئی لباس نہیں۔

فائزہ کی حیرانی، پریشانی میں بدل گئی جب شہر بانو کی کتابوں کا بل لگ بھگ تیس ہزار روپے بنا۔ کہنے لگی

آپی، کیا شہر بانو یہ ساری کتابیں پڑھے گی؟

اور ہمیں معلوم تھا کہ وہ کتابی کیڑا کچھ ہی دنوں میں سب چاٹ ڈالے گی کہ اس نے اپنے پسندیدہ مصنف کی کتابیں خریدی تھیں، مورا کامی کی کتابیں۔

مورا کامی کا نام ہم نے کچھ برس پہلے ایک جاپانی دوست کے منہ سے سنا تھا۔ ڈاکٹر یاسوشی ٹوکیو یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور ہمارے ساتھ ہالینڈ میں ماسٹرز کر رہے تھے۔ جاپانی لٹریچر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی زبان پہ ایک ہی نام تھا، مورا کامی!

آنے والے برسوں میں ہم نے شہر بانو کو دیوانہ وار موراکامی کی کتابیں پڑھتےدیکھا۔

بارہ جنوری جاپانی مصنف مورا کامی کی سالگرہ کا دن ہے!

مورا کامی جس کے بارے میں برطانوی اخبار ” گارڈین ” نے لکھا، “عہد حاضر کا وہ عظیم ناول نگار جو ہمارے درمیان، ہمارے زمانے میں موجود ہے

 میں سوچتا ہوں لوگوں کے دل گہرا کنواں ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ تہہ میں کیا ہے، آپ صرف اوپر آنے والی چیزیں جان سکتے ہیں

اگر تم مجھے یاد رکھو، چاہے ساری دنیا بھلا دے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ دنیا نے مجھے بھلا دیا

دو دلوں کے درمیان صرف آہنگی کا رشتہ نہیں ہوتا، وہ اپنے باہمی زخموں کےذریعے ایک دوسرے سے جڑتے ہیں، درد درد کو پہچانتا ہے اور شکستہ پائی، شکستہ دل کو

محبت کرنے والا اپنے گم گشتہ حصوں کو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے، محبوب کی یاد اداسی میں مبتلا کرتی ہے، باکل ایسے ہی کہ آپ اپنے پسندیدہ کمرے میں واپس جانا چاہیں جہاں آپ کی یادیں دفن ہوں

دنیا کبھی نہ ختم ہونے والی متضاد یادوں کی ایک جنگ ہے

کوئی سچ اس غم کا علاج نہیں کر سکتا جو کسی کے جدا ہونے سے ملتا ہے۔ کوئی سچ، کوئی طاقت، کوئی التفات، کوئی مہربان الفاظ۔ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں، اگلے غم کا سامنا کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں جو اچانک آئے گا

آپ جتنا چاہے سفر کریں، اپنے آپ سے نہیں بھاگ سکتے

یادیں چھپائی جا سکتی ہیں لیکن اس وقت کو مٹایا نہیں جا سکتا جب ان یادوں نے جنم لیا

یادوں سے توانائی پھوٹتی ہے لیکن وہ آپ کو ریزہ ریزہ بھی کرتی ہیں

نصیب ایک چھوٹے بگولے کی طرح ہوتا ہے جو رخ تبدیل کرتا رہتا ہے۔ آپ کا رخ جب بدلتا ہے تو یہ بگولا بھی تعاقب کرتا ہے، آپ پھر رخ بدلتے ہیں یہ پھر پیچھے آتا ہے۔ یہ کھیل بار بار جاری رہتا ہے جیسے سورج نکلنے سے پہلےموت کے ساتھ رقص۔ یہ بگولا کہیں اور سے نہیں آیا، یہ بگولا تم خود ہو، تمہارے اندر کا طوفان ہے۔ تمہیں اور کچھ نہیں کرنا سوائے اس کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ انکھین اور کان بند کر کے، سو ریت تمہاری آنکھوں اور کانوں میں نہ جا سکے۔ اس سے قدم بہ قدم گزرتے جاؤ۔ خیال رکھنا، وہاں چاند نہیں ہے، سورج نہیں ہے، کوئی سمت نہیں ہے، وقت کا احساس نہیں ہے، بس سفید ریت ہے جو آسمان تک چھائی ہے جیسے پسی ہوئی ہڈیوں کا سفوف۔ اور تمہیں اس بے قابو، پرتشدد، ماورائی اور علامتی طوفان سے گزرنا ہے۔ جب تم گزر جاؤ گے تو تمہیں یاد بھی نہ رہے گا کہ تم اس سے کیسے نکل آئے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا طوفان کے گزرنے کے بعد تم وہ نہیں ہو گے جو تم طوفان سے پہلے تھے

 مورا کامی 1949 میں جاپان کے ایک شہر کیوٹو میں پیدا ہوئے۔ والدین لٹریچرکے استاد تھے۔ جاپان میں ہی تعلیم حاصل کی اور ڈرامہ میں بیچلرز کے بعد اپنا جاز کلب کھولا۔ مورا کامی کو میوزک اور کھیل دونوں سے شغف تھا۔ 1978 میں بیس بال کا ایک میچ دیکھتے ہوئے انہیں ایسا لگا کہ وہ لکھ سکتے ہیں۔ سٹیڈیم سے اٹھنے کے بعد اسی رات تخلیق کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

 ان کی تحریروں میں لاشعوری کیفیات اور نصیب کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ وہ کافکا کی تخلیقات سے بہت متاثر ہیں۔ روسی ادیب ٹالسٹائی اور دوستو وسکی بھی ان کے پسندیدہ ادیبوں میں شامل ہیں۔

مورا کامی کے ناولز کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ دنیا کےسب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان کو بےتحاشا انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کے کچھ مشہور ترین ناولز میں

 Hear the wind sing, A wild sheep chase, Underground, Kafka on the shore, Blind Willow, sleeping woman, The wind up bird chronicle شامل ہیں۔

شعور ، تحت الشعور کی اتھاہ گہرائیوں اور لطیف احساسات سے کھیلنے والےاور انہیں الفاظ کا پیراہن پہنانے والے مورا کامی ہمارے آج میں، ہمارےساتھ ہیں۔ جیسے کبھی بہت سے لوگوں نے کافکا اور دوستووسکی کا زمانہ برتا! ہماری خوش نصیبی!

 سالگرہ مبارک، مورا کامی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments