جنوری ہر سال کیوں چلا آتا ہے؟


جنوری لوگوں کے لئے نیا سال نئی امیدوں کا مہینہ ہے لیکن میرے لئے یہ مہینہ پچھلے کئی سالوں سے نحوست کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ مجھے اب اچھا نہیں لگتا۔ کبھی مجھے اس مہینے سے عشق تھا، مجھے لگتا یہ مہینہ خوبصورت دنوں کی نوید لے کے آتا ہے، اس ماہ سے دن لمبے ہونا شروع ہوتے ہیں، جب ہر دن پہلے دن کی نسبت بڑھتا جاتا ہے تو میں عجیب سے سحر میں گرفتار ہوجاتی، یہ مہینہ خزاں اور بہار کے درمیان ایک پل ہے، جس میں جاڑا پڑاؤ ڈال کر بہار کے آنے کی دستک دیتا ہے، یہ سندیس دیتا ہے کہ کالی رات چھٹنے والی ہے بس میری جان کچھ دن اور۔

پھر ہر سو ہریالی ہوگی اور پھر زندگی مسکرانے لگے گی۔ لیکن اب یہ مہینہ رلا دیتا ہے، یوں لگتا ہے قہر اب کبھی ختم نہیں ہوگا، بہار آئے گی نہ کبھی پھول کھلیں گے، ہرچیز اجڑی اور ویران ہی رہے گی۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس مہینے کی نحوست سال کے گیارہ مہینے قائم رہے گی۔ کاش یہ مہینہ کبھی نہیں آتا، جنوری کی چودہ تاریخ میرے لئے سیاہی بن گئی، یہ مہینہ میری زندگی کی خوشیوں کوکھا گیا، اس نے مجھ سے میرا سایہ، میرا باپ، میرا سب کچھ چھین لیا۔

وہ جو میرا سب کچھ تھے، وہ باپ جنھوں نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی تنہا نہیں چھوڑا تھا وہ ہمیشہ کے لئے اکیلا کرگئے۔ جو دسمبر کی سرد راتوں کو اٹھ اٹھ کر ہمیں دیکھنے آتے، ہمارے لحاف اترے دیکھ کر بولتے جانے ان کو سردی بھی نہیں لگتی، ابھی تک لحاف نہیں اوڑھنا آیا انھیں، جانے زندگی کیسے گزاریں گے۔ انھیں کیا پتہ کہ زندگی واقعی نہیں گزارنی آئی ان کے بغیر، وہ ہوتے تو ڈھانپ لیتے، جیسے بچپن میں سردی سے بچانے کے لئے اپنی گرم چادر میں چھپا کر گود میں بٹھا لیتے تھے، وہ ہوتے تو اب بھی زمانے کی سختی سے بچاکر اپنی چادر میں چھپا لیتے۔

کبھی کچن میں گھسنے کا شوق سوار ہوتا تو ابو ہی ہوتے جو میرے ہاتھ کے سارے بدصورت کھانے دیکھ کر خوب تعریف کرتے، پانی سے بھرے ڈونگے میں سات آٹھ کچی بوٹیاں تیرتی ہوئی ان تک پہنچتی تو داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتے، آہا لگتا ہے آج پھر آب گوشت پکایا ہے، دیکھ کر خوب تعریف کرتے البتہ کبھی کھانے کا رسک نہیں لے سکے، کہ بیٹی بے شک سانجھی ہوتی ہے لیکن پیٹ صرف اپنا ہی ہوتا ہے، سچ پوچھیں تو ان کھانوں کو چھکنے کی ہمت خود کبھی مجھ میں بھی نہیں ہوئی، میں نے ذاتی طور پر ایک دو بار رسک لینے کا حوصلہ کیا تھا، لیکن وہ سیرت کے حوالے سے بھی بالکل اپنی صورت پہ ہوتے۔

دنیا کے جلے ہوئے نقشوں پہ مبنی میری بنائی روٹی کو دیکھ کر اجازت لی جاتی کہ بارڈر کس طرف سے پار کرنا ہے، اپنی اور میری بہتر صحت کے پیش نظر وہ مجھے کچن سے باہر رہنے پر ہی زور دیتے۔ سوچتی ہوں اگر ابو زندہ ہوتے تو آج بھی کچن جیسی گرم جگہ، جہاں آگ کے پاس کھڑے ہو کر جہنم کی ٹریننگ لی جاتی ہے، سے محفوظ رہتی۔

ہاں اگر وہ ہوتے تو شاید میں لکھاری بن ہی جاتی، کہ ایک وہی تو تھے جو سراہتے تھے۔ میری پہلی تحریر شائع ہوئی تو بھائی نے پڑھ کر خوب مذاق بنایا دیکھو تو کیا بونگیاں لکھی ہے، اورمجھے چڑانے کے لئے اخبار کو سنبھال کر رکھ لیا اور پندرہ دن لگاتار چھت پہ جا کر باآواز بلند پڑتا رہا، جس پر ابو نے مجھے انعام اور اسے ڈانٹ سے نوازا۔ میں جو بھی کالم لکھتی اپنے دوستوں کو دکھاتے، مجھے شرمندگی ہوتی کہ اتنا فضول سا لکھتی ہوں ابو کے دوست کیا سوچتے ہوں گے، لیکن وہ خوش ہوتے کہتے ایسے ہی تمھاری جھجک دور ہوگی اور آگے بڑھو گی، یہ انھی کا کام تھا بیٹی کا حوصلہ بڑھانے کے لئے یار لوگوں کے حوصلے کو امتحان میں ڈال دیتے۔

کہتے تھوڑی سی محنت سے زیادہ لکھ سکتی ہو، خوب پڑھو اور پھر لکھو، لفظ سوچو، جملے بناؤ۔ اگر وہ ہوتے تو میں لکھتی رہتی میرا لکھنے کا تسلسل ٹوٹتا نہیں، لیکن وہ چلے گئے تو میں کیسے لکھتی ان کے جانے کے بعد بھلا مجھے کون پڑھتا، کون کہتا کہ تم لکھو میں پڑھوں گا۔ مجھے رات گئے تک اگر پڑھنا ہوتا تو میرے پاس بیٹھ جاتے کہ مجھے رات کو اکیلے بیٹھنے سے ڈر لگتا تھا جب تک میں پڑھتی انھیں میرے ساتھ بیٹھنا پڑتا۔ میں شام کے بعد کبھی اکیلے نہیں رہ سکتی تھی، جب کبھی اتفاق سے گھر کوئی نہیں ہوتا تو انھیں اپنی نماز گھر میں ادا کرنا پڑتی ورنہ تو باجماعت نماز کے اس قدر پابند تھے کہ بیماری کی حالت میں بھی مسجد ہی جاتے۔

کیا انھیں پتہ ہوگا کہ مجھے اب بھی اکیلے ڈر لگتا ہے، وحشت ہوتی ہے، کسی آواز پر میں آج بھی اتنا ہی سہم جاتی ہوں، میں آج بھی ویسی ہی ہوں، مجھے آج بھی ان کی ضرورت ہے پہلے سے بہت زیادہ۔ ابو میں بہت اداس ہوں آپ کے بغیر، پریشان ہوں، دل کرتا ہے آپ کہیں سے چلے آئیں اور سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے۔ آپ تو کہا کرتے تھے بچے کتنے ہی بڑے ہو جائیں لیکن والدین کے لئے ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں، ابو ہم واقعی بچے ہیں بڑے نہیں ہو سکے، ہم ہمیں آپ کی ضرورت ہے، آپ اپنی چادر میں چھپا لیں۔

ابو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے پانی لینے بھیجیں اور میں کچن تک جاتے بھول جاؤں، خالی ہاتھ واپس آنے پہ مجھے مسکرا کر دیکھیں اورکہیں تم کچھ لینے گئی تھی اور میں ہمیشہ کی طرح ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے کہوں، اوہووووو ابھی لائی، اور ہم باپ بیٹی ہنس دیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ پھر سے ہمیں اپنی دعا کے حصار میں لے لیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خزاں کا موسم چلاجائے، آپ آجائیں، بہار آ جائے۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھرجنوری کیوں ہر سال چلا آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments