فیصلے ہو چکے: اب صرف تقریریں ہوں گی


وزیر اعظم عمران خان تبدیلی اور احتساب کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئے تھے۔ انھوں نے عوام کو امید دلائی تھی کہ نئے پاکستان میں خوشحالی ہو گی۔ سب کو چھت ملے گی۔ لوگوں کو نوکریاں ملیں گی۔ سب باروزگار ہو نگے۔ مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سب کو میسر ہو نگی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ ان کے تقریروں اور وعدوں کے خلاف چل رہا ہے۔ احتساب کی بتی کو ٹرک سمیت دریا برد کردیا گیا ہے۔

کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور این آر او کسی کو نہیں دوں گاکا نعرہ بری طرح رسوا ہوکر منہ چھپائے پھیر رہا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نئے پاکستان میں کہیں بھی ان کو جگہ نہیں مل رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ پس پردہ معاملات طے کر کے ان کو علاج کے بہانے ملک سے باہر جانے دیا گیا۔ شہباز شریف کو احتساب کی لانڈری میں ڈال دیا گیا ہے، گویا ان کی صفائی کا عمل بھی جاری ہے۔ چند مہینوں میں ان کا معاملہ بھی طے ہو جائے گا۔

پھر مریم نواز شریف کی باری ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بعد یہ مرحلہ کسی بھی وقت انجام تک پہنچ جائے گا، مطلب ان کواپنے والد میاں نواز شریف کے پاس جانے کی اجازت مل جائے گی۔ رہے حمزہ شہباز شریف تو ان کا معاملہ بھی رواں برس ہی ختم ہوجائے گا۔ پھر وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے مصنوعی روپ میں نظر آئیں گے۔ وہ ایوان میں خوب گرجیں اور برسیں گے مگر جب بھی قیام کا وقت آئے گا تو وہ سجدے ہی میں گرے گا، اس لئے کہ اس خاندان کو کھڑے ہونے کی بجائے سجدوں میں گرنے کا زیادہ شوق ہے اور یہی اس خاندان کی سیاسی روایت بھی ہے۔

زرداری خاندان کے ساتھ بھی مک مکا ہوچکا ہے۔ آصف علی زرداری کو رہائی مل گئی ہے۔ ان کی بہن فریال تالپور کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ آصف علی زرداری چند مہینے ملک ہی میں رہے اور پھر علاج کے لئے باہر چلے جائے۔ لیکن اس مرتبہ شریف خاندان بازی لے گیا ہے اور مزید خدمت کے لئے بھی تیار ہے اس لئے ان کی زیادہ ضرورت نہیں ہو گی اور ان کے زیادہ نخرے بھی برداشت نہیں کیے جائیں گے لہذا ہو سکتا ہے کہ اگر وہ شدید بیمار نہ ہوئے تو وہ ملک میں ہی رہیں گے۔

ان کو معلوم ہے کہ تین برس قبل بلو چستان کی صوبائی حکومت گرانے اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں جو خدمت ان سے لینی تھی وہ لے چکے ہیں۔ آرمی ایکٹ پاس کرنے کے لئے بھی وہ اپنا کندھا پیش کر چکے ہیں۔ اس لئے امید یہی ہے کہ ان کو مزید تنگ نہیں کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو لہو گرم رکھنے کے لئے کبھی کبھار تنگ کیا جائے گا۔ چند مہینے وہ جیل میں رہیں گے اور پھر اقتدار کی ایوانوں میں براجمان ہوں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی گرفتاری اورپیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی ضمانت منسوخی اسی ڈرامے کا سکرپٹ ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کے احتساب کی عدالتوں کو جس طرح خیبر پختون خوا میں تالا لگا کر بند کر دیا گیا ہے اسی طرح اب پورے ملک میں احتساب کے نظام کو تالا لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ ہاں رنگ آمیزی کے لئے سال میں ایک دو مرتبہ اس دکان کو کھولنے کا ڈرامہ ضرور رچایا جائے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی خواہش کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسئلے کو حل کردیا گیا ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ادھر ہم اور ادھر تم کے نعرے پر ایک مرتبہ پھر خلوص نیت کے ساتھ عمل کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر پر اب صرف عالمی اداروں میں دھواں دار تقریریں ہوں گی۔ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چار سال تک پوری دنیا میں سیر سپاٹے کرتے نظر آئیں گے۔ وزارت خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ کی ابتداء کشمیر سے ہی ہوگی۔

مگر عملی طور پر مقبوضہ وادی پر بھارت کا قبضہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ معاہدہ تو یہی تھا کہ دلی مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لئے جو بھی اقدامات کرے گا اسلام آباد زبانی جمع خرچ پر گزارا کرے گا اور دلی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر دعویٰ سے دست بردار ہوگا، مگر بھارت اپنے وعدے سے مکر گیا ہے اور اب ان کے نئے آرمی چیف آئے روز آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

چھت دینے کے جو وعدے کیے گئے تھے ممکن ہے کہ پانچ سالوں میں چند سو افراد کو گھر دے بھی دیے جا ئیں مگر سوشل میڈیا پر یہی چند سو گھر پچاس لاکھ سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہوں گے۔ لوگوں کو روزگار ضرور ملے گا مگر اپنے ملک پاکستان میں نہیں بلکہ اس کے لئے ان کو ملک سے ہجرت کرنے کی ضرورت ہو گی۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ عوام کی کمر توڑ دے گی۔ روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔ اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں اضافے سے غریب کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔

لیکن یہ سارا بوجھ معاشرے کا غریب طبقہ برداشت کرے گا اس لئے کہ اقتدار پر قابض لوگ روزانہ کی بنیاد پر خوشخبری دیں گے کہ گھبرانا نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان گزشتہ حکمرانوں کی قصے سنا کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ہر نئے سال پر قوم کے نام پیغام میں امید دلاتے رہیں گے کہ گزشتہ سال مشکل تھا۔ ہم نے مشکل فیصلے کیے، رواں برس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ ہوگی کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں اس ظلم اور نا اہلی پر خاموش ہوگی۔

ممکن ہے کہ پارلیمان کے اندر ڈرامہ بازی کے طور پر احتجاج کریں لیکن حکومت کو اس ظلم اور زیادتی سے باز رکھنے کے لئے وہ سڑکوں پر احتجاج سے گریز کریں گے۔ اخبارات میں بیانات بھی بڑے زوردار دیں گے۔ حالات حاضرہ کے پروگراموں میں حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین ایک دوسرے پر خوب گرجیں گے اور برسیں گے لیکن عملی طور پر حکومت عوام کو ریلف دینے سے گریزاں ہو گی اور حزب اختلاف ان پر عوام کو سہولیات دینے کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ پانچ سال کے لئے تمام متعلقہ خاندانوں میں مک مکا ہو چکا ہے۔ اب دونوں اطراف سے ایوانوں کے باہر اور اندر صرف تقریریں ہو نگی باقی جو فیصلے ہونے تھے وہ ہوچکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments