مرد کبھی بوڑھا نہیں ہو تا


مرد کبھی بوڑھا نہیں ہو تا

”ہائے۔ اچھا سچی مگر کیسے؟ “

تم ڈاکٹر ہو یار میرا مسئلہ حل کرو۔ میرے آس پاس تو سب عورتیں جوان ہیں اور ان کے شیریں لبو ں پہ شوہر کے بڑھاپے کی داستاں لطیفوں میں رنگین تتلیو ں کی طرح اڑتی پھرتی ہے؟

ڈاکٹر لبنی مرزا اور میں ”لڑکیو ں کی باتیں“ کر رہے تھے۔ وہ باتیں جن کو سننے کے لئے ترسے مرد کان لگائے، پتنگو ں کی مانند بھْو بھْو کرتے مل جاتے ہیں۔ لبنی نے مجھے ایک جملے میں میڈیکل سمجھا دی۔ اس نے کہا ”یہ جو کچھ دیواروں پہ لکھا ہو تا ہے۔ میڈیکل سائنس اس کے بالکل برعکس ہے“

بس یہ سننا تھا کہ میری ”ڈاخٹری“ جاگ گئی۔ مرد کو سمجھنے کا آسان طریقہ ”الٹی گنتی ہے“ ”الٹا پہاڑہ“ ہے۔ یعنی مرد الٹنی گنتی ہے۔ پھر کیا تھا۔ لکھ پڑھ رہی نہیں تھی۔ خاموشی کا دور طویل ہو تا گیا۔ مگر آنکھیں ظالم سکو ن قبر میں ہی جا کر پائیں گی۔ ابھی چند دن قبل ہی علم ہوا ہے۔

”مرد کو درد نہیں ہو تا“

ہائے او میرے ربا۔ آج کل درد سب سے زیادہ مرد کو ہی ہے۔ اس کا انگ انگ دکھ رہا ہے۔ ”خطبات خلیل الرحمن قمر“ نے ان کی دکھتی رگو ں کے کلچ پہ مسلسل پیر رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ اس کی بریکیں آج کل خراب چل رہی ہیں۔

اب مجھے بتائے مرد کو درد کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہو رہا ہے۔ اور ہو گا کیوں نہیں۔ دو چار فی صد مردوں کو نکال کے باقی سب سفید پوش مرد تو بے چارے مارے گئے۔ گویا میرے ملک کی اکثریت مردانہ آبادی حالت درد میں ہے۔ مباحث یوں جاری ہیں۔ جیسے ہمیں اس مسلے کا حل نکالنا ہے۔ کیونکہ اس سب کھیل میں عورت لالچی ہے۔ تو میرے پیارے پیارے عزیز ہم وطنو! عورت اتنی ہی لالچی ہو تی تو جنت میں سب کچھ تھا۔ یونہی تمہارے ساتھ آکر زمین پہ کیو ں مشقت میں پڑ جاتی۔ مگر میں آپ کی خوشی مان لیتی ہوں کہ عور ت لالچی ہے۔

آپ لالچی نہیں ہیں؟ ہائے۔ اب یہ بھی میری ”ڈاخٹری“ کا نتیجہ ہے۔ کہ یہ فارمولا بھی الٹی گنتی ہے۔ جنت میں حور ملے گی۔ واہ جی واہ۔ شادی کرلو مفت میں نرس، کام کر نے والی، محبت کر نے والی اور پتا نہیں کیا کیا مل جائے گی۔ سسرال کا دوزخ ویسے ہی نہیں بھرتا۔

ویسے ایک اورمزے کی بات ہے یہ درد غریب مردوں کے خواب پہ لینڈ سلایڈنگ ہے۔ خلیل الرحمن قمر نے اس چانس کو بھی آتش دان میں پھنک دیا ہے۔ متوسط اور غریب طبقہ میرے ملک میں سب سے زیادہ ہے یہ گیم انہی سے کھیلی گئی ہے، کسی امیر مرد کو اس سب نے متاثر نہیں کیا۔ یہ وہ مردانہ طبقہ ہے جو پینٹ شرٹ والی عورت کو امیر سمجھ کر اس پہ جال ڈالنے کی بھر پو ر کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ نہ تجربہ کاری ہے۔ اس لئے ان کو علم نہیں کہ شلوار قمیض دوپٹہ شال والی لڑکی امیر ہے۔ یہ اصل میں مہنگا لباس ہے۔ جتنے میں یہ ایک جوڑا بنتا ہے اتنے میں تین چار پینٹ شرٹ آ جاتی ہے۔ اور جو ابھی تک پرانے امیر راویتی گھرانے میں ان کی خواتین اسی لباس کو اسی شان سے پہنتی ہیں۔ لیکن مرد اس کو غریب سمجھ کر، اصل غریب یا متوسط عورت کی جھوٹی چمک پہ مر مٹتے ہیں۔ بھیا کیا یہ لالچ نہیں؟

کہ آپ میرے خوابو ں کی ملکہ ہیں۔ بھئی وہ اپنے باپ کی شہزادی ہے۔ جن کے آپ داماد بن کر شہزادے بننے کے خواب دیکھ رہے ہو تے ہیں۔ کیا یہ لالچ نہیں۔ چلئے مان لیا۔ یہ لالچ نہیں۔ آپ کا حق ہے کہ آپ اپنی اولاد کے لئے بہترین ماں کا انتخاب کر یں۔ مگر کیا عور ت کا حق نہیں کہ وہ بھی دیکھ بھال کر اپنے بچوں کے لئے ایک سلجھے ہو ئے باپ کا انتخاب کرے۔ جس کو روٹی اور چھت ان کا بات دے۔ نہ کے اس کا نتظام بھی ؒر کی کے بات کو کر نا پڑے؟

یہ تو وہ بات ہو ئی ”آپ کا کتا ٹومی، ہمارا کْتا کْتا“

تو یہ جو آپ سب کے حواس باختہ پہ چھایا ہوا ہے۔ یہ سب جو ”خطبات خلیل الرحمن قمر“ ہیں۔ اس سب کو الٹا کر کے دیکھئے اور سوچئیے۔

قسمے، سب کچھ سمجھ آ جائے گا۔ اور یقین کریں۔ اکثریتی آبادی اکثریتی آبادی کے حصے میں ہی آ تی ہے۔ مرد ہو یا عورت دولت کی کشش کسی حد تک دونوں کو اپنی طرف کھنچتی ہے۔ مرد کو ذرا زیارہ کھنچتی ہے۔ اس لئے وہ خود کو چھپانے کے لئے سب کچھ عورت پہ ڈال کر بہت تسکین حاصل کر رہا ہوتا ہے۔

ویسے سچی بات یہ ہے کہ عورت اگر کسی غریب یا متوسط مرد کا انتخاب شادی کے لئے کر لے تو بھی مرد شک میں پڑجاتا ہے کہ جو ہری نے اس میں چھپا ہیرا دیکھ لیا ہے۔ اور وہ یا تو بھاگ جاتا ہے۔ یا کسی آسمان پہ بیٹھ کر خدا بننے کی باکام کوشش کر تا ہے۔ اس لیے عقل مند عورت نارمل کھسکے ہو ئے کا انتخاب کر نے کو ترجیح دیتی ہے۔ باقی اکثریتی آبادی کے مردوں سے اپیل ہے جب تک آپ مان نہیں جائیں گے کہ

مرد کو درد نہیں ہو تا

مرد کبھی بوڑھا نہیں ہو تا

مرد روتا نہیں

مرد بیوقوف نہیں ہو تا

مرد حاکم ہے

عورت پیر کی جوتی ہے (جو سر پہ بھی پڑ سکتی ہے )

مرد سرتاج ہے (تاج عورت لاتی ہے۔ صرف سر اس کا اپنا ہو تا ہے۔ اس کے اندر بھلے کچھ بھی نہ ہو)

عورت کی عقل چوٹی کے پیچھے ہے (ابھی پیچھے ہے تو آپ تلملا رہے ہیں )

تو آپ نے یو نہی تڑپتے رہنا ہے۔ آپ نے یو نہی گالیاں دینا ہیں۔ آپ نے یونہی ”لبیک خلیل“ کہنا ہے۔

لیکن یاد رکھئے آپ کی سب سے بڑی کمی سلجھا ہوا نہ ہو نا ہے۔ آپ کتنے بھی مال دار کیو ں نہ ہو ں۔ اصل عورت ایک سلجھے ہو ئے مرد کو پسند کر تی ہے۔ نو دولتی مرد کو، نو دولتی عورت ترجیح دیتی ہے۔

آئیے مل کر انسان بننے کی کوشش کریں۔

اگرچہ ہم ”خلیل الرحمن قمری“ دورخلافت میں زندہ ہیں۔ جو ایک خاص طبقے کا جلالی دانش ور ہے۔ اور ہم نے اس دانش کو دل پہ ہی لے لیا ہے۔

جس کہانی کے آخر میں ہیرو اپنے بیٹے سے کہتا ہے ”پْتر ایک کلو دہی تے لے آ۔ “ اور سب ہنسی خوشی زندگی بسر کر نے لگتے ہیں۔ کیو نکہ سکون صرف قبر میں ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments