“ووٹ کو عزت دو” بیانیے کا تعویز – مکمل کالم


وہ ایسے سیاسی کارکنان تھے جن کے بارے میں روایت مشہور تھی کہ وہ ووٹوں سے بیلٹ باکس تو بھر سکتے ہیں لیکن کسی قسم کا احتجاج ان کے خمیر میں شامل نہیں ہے۔ یہ سفید پوش پارٹی ورکرز اپنے قائدین کی حمایت میں اپنا کاروبار بند کر کے جلسوں میں نعرے تو لگا سکتے ہیں لیکن یہ قیادت کے لیے سڑکوں پہ لاٹھیاں نہیں کھا سکتے۔ گرمیوں میں لٹھا اور سردیوں میں اونی سوٹ پہننے والے یہ سیاسی پیروکار پارٹی رہنماؤں کے لیے نوٹ تو نچھاور کر سکتے ہیں لیکن خون بہانے کا تصور بھی ان کے لیے محال ہے۔ ہریسے اور سری پائے کھانے کے شوقین یہ خوش خوراک ووٹرز کچھ وقت نکال کر کسی جلوس میں چند منٹ کی حاضری تو لگوا سکتے ہیں لیکن گھنٹوں ریلیوں کے ساتھ سفر ان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ متوالے اپنے رزق حلال سے پارٹی قائد کے لیے صدقہ تو دے سکتے ہیں لیکن اس کی محبت میں اپنے خلاف مقدمے نہیں جھیل سکتے اور وہ اپنے رہنماؤں کی محبت میں پٹواری کا طعنہ تو سہہ سکتے ہیں لیکن مخالف کا گریبان نہیں پکڑ سکتے۔

پھر اس روایت کے ٹوٹنے کا وقت آن پہنچا سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کو نا ایل قرار دیتے ہوئے وزارت عظمی سے فارغ کیا تو زخم خوردہ قائد مسلم لیگ ن نے جی ٹی روڈ کے ذریعے جاتی امراء جاتے ہوئے “ووٹ کو عزت د و” کا نعرہ لگا دیا جس کے ساتھ مسلم لیگ ن کے کارکنان کی تاریخ بھی تبدیل ہو گئی۔ قائد کی بیٹی نے سویلین بالا دستی کا نعرہ لگاتے ہوئے باپ کی ہاں میں ہاں کیا ملائی کہ جیسے کارکنان میں ایک نئی روح پھونک دی ہو۔ صبح باپ بیٹی احتساب عدالت میں پیشیاں بھگتتے اور شام کو کسی شہر یا قصبے میں منعقدہ جلسے میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگواتے تو پارٹی کارکنان فلک شگاف جواب سے تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی اجازت نہ دینے کا عہد کرتے۔

انہی کارکنان نے جب اپنے قائد اور اس کی بیٹی کے منہ سے یہ الفاظ سنے کہ اب محض نئے انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ نئی شرائط لکھی جائیں گی کہ ملک میں حکومت کون کرے گا تو انہوں نے ووٹ کو عزت دو بیانیے کا تعویز بنا کر گلوں میں پہن لیا۔ نواز شریف اور مریم نواز نے اسی بیانیے کی چوٹ سے کارکنوں کا لہو ایسے گرما دیا کہ وہ سر پہ کفن باندھنے پہ تیار ہو گئے۔ پھر عام انتخابات سے پہلے پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو اس بیانیے کے پیروکاروں کا امتحان بھی لیکن پارٹی کے مفاہمتی گروپ کی طرف سے جذبات سے بھرے کارکنان کو عام انتخابات کے انعقاد تک احتجاج سے باز رہنے کا کہ دیا گیا۔ پھر ایون فیلڈ ریفرنس نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی گئی تو بھپرے کارکنان کوملک میں موجود قیادت نے پھسپھسی پریس کانفرنس منعقد کرکے مایوس کر دیا۔

باپ بیٹی لندن سے گرفتاری دینے پاکستان پہنچے تو بیانیے کے اسیر ن لیگی کارکنان نے لاہور کی سڑکوں کو عوام کے سمندر میں تبدیل کر دیا تاہم انہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ائیر پورٹ تک نہیں لے جایا گیا اور وہ بیانیے کے تعویز کو چومتے رہ گئے۔ جیل میں نواز شریف کی طبیعت ناسازی کی خبریں باہر آتیں۔ کارکنان رہنماؤں کی طرف دیکھتے تو راوی چین ہی چین لکھتا رہا۔ کلثوم نواز کی رحلت۔ باپ بیٹی کی پیرول پہ رہائی اور نواز شریف اور مریم نواز کی طویل چپ پہ کارکنان اس خاموشی کو اہلیہ اور والدہ کے کھو جانے کا غم سمجھ کر بہلتے رہے۔ مریم نواز کا ٹوئٹر ہینڈل میوٹ ہو گیا۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا معطل ہوئی تو کارکنان میں ڈیل کے حوالے سے کھسر پھسر شروع ہو گئی۔

پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے خلاف نت نئے مقدمات قائم کرنے اور انہیں حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔ خواجہ سعد رفیق۔ خواجہ رفیق۔ رانا ثنا اللہ کو دھر لیا گیا۔ پارٹی کو اس حد تک دیوار سے لگائے جانے پر کارکنان نے ایک بر پھر گلے میں پہنے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے تعویز کو ہاتھ سے ٹٹولا اور قیادت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا لیکن انہیں اس تعویز کے ذود اثر ہونے تک مزید انتظار کا عندیہ دے دیا گیا۔

اس دوران العزیزیہ ریفرنس میں بھی نواز شریف کو سزا سنا دی گئی انہیں ایک بار پھر جیل میں پہنچا دیا گیا لیکن مفاہمتی ٹولے کی پالیسی غالب رہی اور کارکن تلملاتے ہی رہ گئے۔ جیل میں نواز شریف کی طبیعت بگڑنے کی اطلاعات آتی رہیں۔ انہیں ایک سے دوسرے اسپتال پنگ پانگ بنائے رکھا گیا لیکن ن لیگی کارکنوں کی طرف سے نہ کوئی پتا ٹوٹا اور نہ کسی گملے کو ٹھوکر لگی کیونکہ انہیں کسی واقعے کو بھی فی الحال پارٹی کی دستیاب قیادت اور رہنماؤں کی طرح دل پہ نہ لینے کی غیراعلانیہ پلایسی پہ کاربند رہنے کی ہدایت تھیں۔

کارکنان نے اپنے طور پہ سوشل میڈیا پہ 23 مارچ کو جیل کے باہر احتجاج کا اعلان کیا تو انہیں باہر نہ نکلنے کا طعنہ دینے والوں نے نواز شریف کے ذریعے ہی انہیں ایسا کرنے سے رکوا دیا۔ طبی بنیادوں پہ نواز شریف کو چھ ہفتوں کی ضمانت ملی لیکن اس عرصے میں بھی مصلحت آڑے رہی۔ ضمانت کے چھ ہفتے پورے ہونے پہ نواز شریف کو ریلی کی صورت میں کوٹ لکھپت جیل واپس لے جاتے ہوئے ان کے اس ویڈیو بیان نے کہ انہیں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پہ قائم رہنے کی سزا دی جا رہی ہے کارکنوں کے ضبط کے سارے بندھن توڑ دئِے۔ کارکنان پہ اس تعویز کا جادو دیکھ کر مفاہمتی گروپ نے بھی ٹسوے بہانے شروع کر دیے۔ مریم نواز نے بھی مصالحانہ خاموشی کو ترک کر کے مزاحمتی علم تھام لیا اور ملک بھر میں جلسے اور ریلیاں کرنے کا اعلان کردیا۔

کارکنان کے لیے تو گویا عید ہوگئی وہ پوری رات قائد کی بیٹی کے استقبال کے لیے سڑکوں پہ انتظار کرتے دکھائی دیے۔ اسی دوران نواز شریف سے جیل میں روا رکھے گئے سلوک پہ مریم نواز نے اپنے چچا اور سینئر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کر کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری کر کے بیانیے میں نئی روح پھونک دی تاہم مسلم لیگ ن کے لیے مزید کڑا وقت شروع ہوگیا۔ شاہد خاقان۔ مفتاح اسماعیل بھی اندر ہو گئے عرفان صدیقی کو بھی سبق سکھا دیا گیا۔ سینیٹ الیکشن میں ووٹ کی عزت کی حرمت سرعام نیلام ہوئی توکارکان ہاتھ ملتے رہ گئے۔

مریم نواز کودوبارہ خاموش کرانے کے لیے چوہدری شوگر ملز ریفرنس میں باپ کے سامنے گرفتار کرلیا گیا۔ کارکنان ایک بار پھر مفاہمتی گروپ کے رحم و کرم پہ آ گئے جہاں سوائے بے بسی اور صبر کے گھونٹ پینے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نواز شریف نے آخری مزاحمت کے طور پہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں داماد کیپٹن صفدر کے ذریعے بھرپور شرکت کا پیغام بھیجا لیکن اسے بھی ہائی جیک کر لیا گیا۔ نواز شریف کے پارٹی رابطوں کو ختم کرنے کے لیے انہیں کوٹ لکھپت جیل سے نیب کی جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں ان کی طبعیت سخت خراب ہو گئی اور وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گئے۔ کارکنان نے پھر پارٹی رہنماؤں کو طرف دیکھا جہاں سب امن اور شانتی تھی۔

پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہنے کے بعد نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس اور چوہدری شوگر ملز ریفرنس میں ضمانتیں ہوئیں انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت ملی جبکہ مریم نواز کو بھی ضمانت مل گئی۔ نواز شریف لندن روانہ ہوگئے اور مریم جاتی امرا میں ایک بار پھر مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئیں۔ اسی دوران آرمی ایکٹ میں ترامیم کی صورت میں ووٹ کو عزت دو بیانیے کا پہلا عملی لٹمس ٹسٹ سامنے آیا تو کارکنان سمیت پارٹی رہنماؤں کی امیدوں کا بت پاش پاش ہوگیا۔ انہوں نے پلٹ کر قائد کی بیٹی کی طرف دیکھا تو ان کے ٹوئٹر ہینڈل پہ مزیدار پکوان بنانے کی ترکیبیوں کو لائِک کرنے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔

اب صورتحال یہ ہے ایک طرف پارٹی کے رہنما جھینپتے ہوئے اپنے تاریخی یو ٹرن کا دفاع کرتے ہیں تو ان کے اندر کا کرب اور ذہنی اذیت ان کے چہروں سے جھلکنے لگتی ہے جبکہ دوسری طرف کارکنان استفسار کر رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو بیانیے کے اس تعویز کو گلے سے اتار کر پانی میں گھول کر پی جائیں یا کسی نہر میں بہا دیں۔ نواز شریف اور مریم نواز بھلے اپنی مجبوری اور لاچاری کا ان کارکنوں کو جواب نہ دیں لیکن وہ اپنی ہی نظروں میں گرنے والے پرویز رشید جیسے مخلص پارٹی رہنما کے اس شعر پہ ضرور کوئی تبصرہ فرما دیں کہ

ان تند ہواوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments