شاہی قلعہ پاکستان میں کس کس نے ”فتح“ کیا


سنہ 2004 سے 2007 کے دوران باوردی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک روز ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی، پنجاب کو حساس ادارے کی طرف سے ایک چٹھی ملتی ہے کہ رینجرز اور بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی سالانہ میٹنگ کی دو 3 روزہ تقریبات کے سلسلہ میں ڈنر و میوزک نائٹ کے لئے ”حضوری باغ“ درکار ہے، جو لاہور کے شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع تاریخی سبزہ زار ہے۔ ”وردی والوں“ نے لکھا تھا کہ ”حضوری باغ“ پروگرام سے دو تین روز قبل ہی ان کے حوالے کردیا جائے تاکہ وہا‍ں مہمانوں کی آمد سے پہلے پہلے ”حضوری باغ“ کے سامنے واقع شاہی قلعہ کے مرکزی دروازے ”عالمگیری گیٹ“ پر پینٹ وغیرہ کر لیا جائے۔

ڈی جی آثار قدیمہ نے تاریخی ”حضوری باغ“ نامی سبزہ زار ایسے کسی استعمال کے لئے دینے سے انکار کرتے ہوئے جواب میں لکھا ”یہ monument ہے، آپ کی کوئی unit نہیں جس پر آپ رنگ و روغن کر سکتے ہوں“ درمیان میں چند روز گزرے اور پھر ایک رات رینجرز نے ازخود ”حضوری باغ“ کو ”ٹیک اوور“ کرلیا۔ اس واقعے کی خبر اگلی صبح کے روزنامہ ”پاکستان“ میں راقم نے ہی ”بریک“ کی تھی۔

اور پھر ”وردی والے“ جوانوں نے راتوں رات وہاں گڑھے کھود کر ”زیر قبضہ“ تاریخی سبزہ، ”حضوری باغ“ میں تنبو قناطیں نصب کرلیں کیونکہ ”تخت لاہور“ چوہدری پرویز الٰہی کے پاس تھا، جو ویسے ہی ”وردی“ کو مزید 10 سال بھگتنے کی آفر دیتے رہتے تھے۔

اسی ”حضوری باغ“ کو جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں ایک میڈیا ہاؤس کے مالک محسن نقوی نے امریکی ٹی وی نیوز چینل سی این این کی سلور جوبلی تقریب ”جیو“ کے اشتراک سے منعقد کرنے کے لئے استعمال کیا جو اس وقت ”سی این این“ سے وابستہ تھے، اور یہاں میوزک نائٹ برپا کی۔

ملک پر ”باوردی صدر“ کی حکومت کے ہی کے دور میں خود جنرل پرویز مشرف نے ریسنگ کار ”فارمولا وَن“ کی تقریب نمائش کے لئے شاہی قلعہ مانگ لیا، جنرل صاحب قلعہ کے اندر یہ فنکشن کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے حکمران جماعت مسلم لیگ ”قاف“ کے صدر چوہدری شجاعت کو ڈی جی، آرکیالوجی کے پاس بھیجا گیا کہ بنیادی طور پر ان کا تعلّق بھی گجرات سے تھا، اور وہ چوہدری صاحب سے اعتماد کا رشتہ رکھتے تھے۔ چوہدری شجاعت نے ”باوردی“ صدر کی خواہش بتاتے ہوئے کہا کہ شاہی قلعہ کے تاریخی مرکزی داخلی دروازے ”جہانگیری گیٹ“ کے آگے ”ریمپ“ یعنی چبوترہ بنوا دیا جائے مگر۔ عالمی تاریخی ورثے، شاہی قلعہ کے اندر ایسی کوئی تقریب کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔

البتّہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہ ”اعزاز“ حاصل رہا ہے کہ انہوں نے شاہی قلعہ کے تاریخی ”دیوان عام“ میں اپنی پارٹی کا ورکرز کنونشن منعقد کیا اور تاریخی ورثے کو اس وقت نقصان بھی پہنچا جب کنونشن میں شریک لیگی ”متوالوں کی دھکم پیل سے لوگوں کا ہجوم“ دیوان عام ”کے ایک طرف کے جنگلے پر جا گرا تھا۔

پھر ایک بار پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر نے اپنی فیملی کی ایک شادی کے لئے شاہی قلعہ استعمال کیا اور ولیمے کی تقریب قلعہ کی ایک نادر عمارت ”شیش محل“ کے سامنے واقع لان میں برپا کی

اسی عسکری دور میں چیف سیکرٹری پنجاب حسن وسیم افضل کی بیٹی کی شادی کے لئے تاریخی بادشاہی مسجد کو استعمال کیا جو اگرچہ صوبائی محکمہ اوقاف کی تحویل میں ہے تاھم اس عہد مغلیہ کے اس عظیم تاریخی ورثہ کی دیکھ بھال کا ذمہ دار آثار قدیمہ کا صوبائی محکمہ ہے۔ سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب میں واقع تمام تاریخی ورثوں کے تحفظ کے لئے پنجاب ہیریٹیج فاؤنڈیشن ایکٹ کے نام سے ایک نیا قانون بھی منظور کیا گیا تھا، بہرحال صوبائی چیف سیکرٹری حسن وسیم افضل نے جو شہید بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ سے مواد جمع کر کے حوالے سے سیف الرحمن کے احتساب بیورو میں اھم اسائنمنٹ انجام دے چکے تھے، اپنی بیٹی کے نکاح کے لئے بادشاہی مسجد کا مرکزی ہال کمرہ استعمال کیا اور لائٹس لگانے کے لئے مسجد کے وسیع و عریض صحن کے فرش پر کیلیں گاڑ کر تحفظ آثار قدیمہ قانون کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔

اور اب۔ ۔ ۔ اسی ”ثقافتی دور“ کے، بیوروکریسی کے ایک اھم کردار کامران لاشاری کے ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی اتھارٹی لگ جانے کے بعد مغلیہ عہد کی اسی عظیم یادگار، شاہی قلعہ کو کسی سرمایہ دار کی بیٹی کے بیاہ کی رسمو‍ں کے لئے کسی ایونٹ مینیجر کے حوالے کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں ہیبت کی علامت سمجھے جانے والے عظیم مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے عہد میں تعمیر کیا گیا ”رائل کچن“ ایک نجی ولیمہ کے لئے زیر استعمال تھا۔

اٹلی کا ”پیسا ٹاور“ ہو یا آگرہ کا تاج محل، دنیا بھر میں کسی بھی تاریخی یادگار کے آگے کسی کو ایک لائٹ تک نصب کرنے کی اجازت ہے نہ کوئی ہارمونیم تک بجا سکتا ہے لیکن پاکستان میں خوشامدی اور راشی بیوروکریٹس اس عظیم ثقافتی ورثہ کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے بھی نہیں چوکتے، جسے اقوام متّحدہ کے ثقافتی ادارے ”یونیسکو“ نے عالمی تاریخی ورثوں کی لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments