کشمیر، بلوچستان برف باری: مسلسل برفباری سے امدادی کاموں میں مشکل، موصلاتی رابطے منقطع


پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رواں موسم سرما کی شدت کے باعث ہونے والی برفباری کے باعث ضلع نیلم کے بیشتر دیہاتوں کا دارالحکومت مظفرآباد اور دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔

شدید برفباری کے باعث متعدد مقامات پر برفانی تودے گرنے کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں اب تک پورے ضلع نیلم میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نیلم کے متعدد دیہات شدید برفباری سے متاثر ہوئے ہیں جن سے بیشتر کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔

برفباری کے بعد ’سفید‘ کوئٹہ کے مناظر

پاکستان میں موسم سرما کی شدت: 75 افراد ہلاک

جب برف باری میں تفریح ایک بھیانک خواب بن گئی

کشمیر: ’برف کم، مگر خطرناک ہے‘

مظفرآباد سے نیلم کے لیے جانے والے ریسکیو 1122 کی ٹیم کے ایک اہلکار منظور میر نے ٹیلی فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ٹیم لوات پائن تک پہنچ کر پھنس گئی ہے۔ یہاں سے آگے گاڑیوں کا جانا ناممکن ہے۔

’ہمارے پاس ریسکیو کے سامان اور ایمولینس تو ہے لیکن ہم یہاں سے آگے نہیں جا سکتے۔ برفباری بہت زیادہ ہے۔ ہم نے یہاں تک پہنچنے کے دوران بھی راستے میں کئی لوگوں کو ریسکیو کیا۔ سڑکوں پر مقامی افراد کی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ سیاح بھی پھنسے ہوئے ملے۔‘

ریسکیو اہلکار منظور میر کے مطابق انہیں ملنے والے اطلاعات کے مطابق سُرگن کے علاقوں میں پاکستان فوج ہی مقامی افراد کے ہمراہ لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔

متعدد دیہات متاثر رابطہ منقطع

’برفباری سے اپر نیلم ، لوات، ہلمت، تاؤ بٹ، تیجیاں، ماناتھ، اور سرگن کے علاقوں میں لوگ زیادہ متاثر ہوئے۔ زیادہ نقصان سُرگن کے علاقوں سُرگن سیری، اور سُرگن بگوال میں ہوا جہاں برفانی تودے گرنے سے کم از کم 41 افراد ہلاک ہوئے۔‘ یہ علاقہ نوری ٹاپ اور ناران کے ساتھ لگتا ہے۔

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بتایا کہ ’برفانی تودے گرنے سے وادی نیلم کے ان علاقوں میں کم از کم 52 مکانات مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں جبکہ 80 کے قریب مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 52 گھرانے شدید متاثر ہوئے ہیں۔‘

شاہد محمود کے مطابق برفانی تودوں کی زد میں مکانات کے علاوہ ایک مسجد، مقامی بازاروں کی 17 دکانیں اور سات گاڑیاں بھی آئی ہیں۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موسم کی سختی اور علاقے تک بروقت رسائی نہ ملنے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ کا خطرہ ہے۔

لوات کے مقامی مفتی عیبد الرحمن کے مطابق لوات اور ضلع نیلم کے مخلتف علاقوں میں وقفے وقفے سے چھوٹے بڑے برفانی تودے گرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’تحصیل ہیڈ کوارٹر شاردہ کے علاقے سُرگن کے دیہاتوں سیری، بگوال، اور ساگام، میں رات اور پھر صبح کے اوقات میں برفانی تودے گرے۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ نسبتاً دور دارز کی ایک یونین کونسل گریرس کا زمینی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے وہاں پر مواصلاتی رابطہ بھی ممکن نہیں۔ وہاں 10 فٹ تک برف پڑ چکی ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ وہاں لوگوں کس حال میں ہیں۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ اس یونین کونسل میں کم از کم دس سے بارہ ہزار لوگ آباد ہیں ہیں۔

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بتایا جو مکانات برفانی تودوں کی زد میں آئے ہیں وہ لکڑی اور سی جی آئی شیٹس (ٹین کی چادروں) کے بنے ہوئے ہیں۔ جو برفباری کے لیے تو موزوں ہیں تاہم برفانی تودی گرنے کی صورت میں زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔

امدادی کاموں میں دشواری

ضلع نیلم کے ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے بتایا کہ مسلسل برفباری کی وجہ سے امدادی کاموں میں کم از کم ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ ’تین ہیلی کاپٹرز کی مدد طبی عملے کے چند اہلکار اور امدادی سامان جن میں کمبل، پلاسٹک شیٹس اور گرم کپٹرِ شام لہیں متاثرہ علاقوں تک پہنچائے گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کے برفباری کی شدت کی وجہ سے قریبی علاقوں کے لوگ ہی بمشکل برفانی تودے سے متاثرہ علاقوں میں جا کر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن بغیر کسی مشینری کے لوگوں کی مدد کرنے مںی دشواری پیش آ رہی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شدید برفباری کے باعث ایک گھر سے دوسرے گھر تک جانا بھی دشوار ہے بعض جگہوں پر سات فٹ سے زیادہ پرف پڑ چکی ہے جبکہ مسلسل برفباری ہو رہی ہے۔

لوات کے مقامی عبید الرحمن نے بتایا کہ سُرگن میں ماضی میں بھی برفانی تودی گرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان کے بقول ’سُرگن کے علاقے سیری میں جنوری 2005 میں برفانی تودہ گرنے سے کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہاں آنے والے برفانی تودوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے اس علاقے کو ’میّتاں والی سیری‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ‘

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’سنہ 2005 کے زلزلے میں تباہی کے بعد بھی لوگوں کو اسی علاقے میں دوبارہ آباد کی گیا۔ حالانکہ اب یہاں برفانی تودے زیادہ خطرناک صورتحال اختیار کر گئے ہیں۔ عمودی پہاڑوں پر اب درخت بھی کم ہیں اور برف باری کی شدت کبھی کبھار کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ ‘

متاثر ہونے والے سکول کے بچے

برفانی تودوں کا شکار ہونے والوں میں سکول کے بچے بھی شامل ہیں۔ پیر کی صبح لوات گاؤں میں سرمائی چھٹیوں کے بعد سکولوں کا پہلا دن تھا جب بچے سکول جا رہے تھی۔ اس دوران برفانی تودہ گرنے سے چند بچے بچیاں اس میں دب گئے۔ دیگر کو تو ریسکیو کر لیا گیا تاہم نویں کلاس کی ایک طالبہ ہلاک ہو گئی۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سرد پہاڑی علاقوں میں عموماً سالانہ چھٹیاں موسم سرما میں دی جاتی ہیں کیونکہ شدید برفباری کے باعث آمد و رفت متاثر ہوتی ہے تاہم بعض علاقوں میں اب بھی باقی ملک کے طرح گرمیوں میں ہی چھٹیاں ہوتی ہیں۔

کوئٹہ بلوچستان کی صورتحال

سجاد احمد ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ تین دن سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں برفباری کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔

وہ ٹرالر کے ڈرائیور ہیں۔ انہیں کوئٹہ سے ایران سبزی لے جانا تھا لیکن وہ تاحال کوئٹہ سے 40 کلومیٹر سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے کیونکہ پہلے ان کی گاڑی دو روز تک کوئٹہ کے قریب لک پاس کے علاقے میں پھنسی رہی لیکن دو روز کے بعد وہ شیخ واصل پہنچے تو ایک بڑی گاڑی الٹنے سے روڈ کی بندش کے باعث آگے نہیں جاسکے۔

ٹرک ڈرائیور نذر محمد بھی شیخ واصل کے علاقے میں پھنسنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ نوشکی سے کوئٹہ کی جانب آرہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں سردی کی وجہ سے ڈرائیوروں سمیت دیگر افراد کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ صرف سجاد احمد اور نذرمحمد کی کہانی نہیں بلکہ ان کی طرح بڑی تعداد میں ڈرائیور اور مسافر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ برفباری کے بعد شاہراہوں پر پھسلن کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔

برفباری کے دو روز بعد اگرچہ کوئٹہ اور دیگر علاقوں کے درمیان اہم قومی شاہراہوں کو کھول دیا گیا ہے لیکن شدید سردی کے باعث ان پر پھسلن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔

بلوچستان کے کون کونسے علاقے برفباری سے متاثر ہیں؟

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں طویل عرصے بعد ایک بڑے علاقے میں برفباری ہوئی ہے۔

بلوچستان کے جن اضلاع کے مختلف علاقوں میں برفباری ہوئی تھی ان میں قلات، مستونگ، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، زیارت، ہرنائی پشین اور قلعہ عبد اللہ شامل ہیں۔

ان 7 اضلاع میں شدید برفباری کی وجہ سے سنو ایمرجنسی کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔

انہی اضلاع کے مختلف علاقوں میں شاہراہیں اور دیگر رابطہ سڑکیں بند ہیں۔

نیلم

ٹریفک کی روانی کن علاقوں میں متاثر ہے؟

ان 7 اضلاع کے جن علاقوں میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں اہم شاہراہیں متاثر ہیں ان میں کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ایران کے درمیان لک پاس ، مستونگ اور شیخ واصل ، کوئٹہ اور ژوب کے درمیان کان مہترزئی اور خانوزئی، کوئٹہ اور سبّی کے درمیان دشت اور کولپور جبکہ کوئٹہ اور افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن کے درمیان کوژک شامل ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق برفباری کے بعد شدید سردی کی وجہ سے برف جم جانے کے باعث پھسلن سے ان علاقوں میں گاڑیوں کی آمد و رفت میں مشکل ہے۔

اس صورتحال کے باعث گشتہ شب قلعہ سیف اللہ میں کان مہترزئی کے علاقے میں کوئٹہ پنجاب اور کوئٹہ پشاور کے درمیان مسافروں کی بڑی تعداد پھنس گئی تھی ۔

ایک اندازے کے مطابق دونوں اطراف کی جانب سے پھنسنے والے افراد کی تعداد 300سے 500 کے لگ بھگ تھی۔

ریسکیو کے کام کی نگرانی کرنے والے محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے اہلکار سید امین نے بتایا کہ اس علاقے میں پھنسے ہوئے تمام افراد کو ریسکیو کرکے مختلف محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ۔

انھوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں انہیں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے کھانا بھی فراہم کیا جارہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بلوچستان کے جن علاقوں میں شاہراہیں بند تھیں بلڈوزروں اور ٹریکٹروں کو استعمال کرکے برف کو ہٹا دیا گیا ہے تاہم پھسلن کے باعث ٹریفک کی روانی اب بھی متاثر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھسلن کے مسئلے کو دور کرنے کے لیے شاہراہوں پرنمک کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے جس کے باعث ان شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی جلد بحال ہوجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp