نواز شریف لعن طعن کا نشانہ کیوں؟


جو لوگ نواز شریف کو ولی اللہ، پہنچا ہوا بزرگ اور قطب دوراں سمجھتے تھے وہ جان لیں کہ نواز شریف ایک انسان ہے۔ جو لوگ نواز شریف کو نطشے کا سپر میں یا اقبال کا تصوراتی و تخیلاتی مرد مومن سمجھتے تھے وہ بھی جان لیں کہ نواز شریف ایک انسان ہے۔ جو لوگ نواز شریف کو دیوتا سمجھ کراس کی پوجا کرتے تھے وہ بھی جان لیں کہ نواز شریف ایک انسان ہی ہے۔ جو لوگ نواز شریف کو جیمز بانڈ سمجھ کر ان سے مافوق الفطرت کارناموں کی توقع کررہے تھے وہ بھی دیکھ لیں کہ نواز شریف انسان ہے۔

جو لوگ نواز شریف کو ساحر یا اوتار گردانتے تھے وہ بھی مان جائیں کہ نواز شریف اول و آخر ایک انسان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف بشری خامیوں اور خوبیوں سے مزیّن ایک محب وطن، راست باز، کھرے، سچے، محنتی، قابل بھروسا، پر اعتماد، بہادر، معاملہ فہم، مرنجاں مرنج اور دور بین سیاستدان ہیں۔ جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کے طفیل دیوار سے ٹکرا کر سر پھوڑنے کے بجائے پسِ دیوار دیکھ کر فیصلے کیے ہیں۔ سیاسی حرکیات و تاریخ سے نا بلد کچھ نادان سروسز ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے فیصلے پر لعن طعن کرتے ہوئے نواز شریف پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر سمجھوتہ کر کے مقتدر قوتوں سے ڈیل کر لی ہے۔

نیز انہوں نے بھی کپتان کی طرح یو ٹرن لینے کی ابتدا کرلی ہے اور اپنے ووٹروں کو سخت مایوس کیا ہے۔ مصائب و آلام کے پہاڑ برداشت کرنے کے بعد عصر کے وقت روزہ توڑ لیا ہے۔ قربانیوں کی داستان رقم کرنے کے بعد ایک بار پھر اقتدار کے لیے مقتدرہ کی چوکھٹ پر سر رکھ دیا ہے اور بقول شاعر ان کی مثال اس شعر کے مصداق ہے

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے

ناقدین کی پیشہ ورانہ اہلیت، نواز دشمنی کی روایت اور بد نیّتی سے قطع نظر; آئیے ان اعتراظات اور الزامات کو حقائق کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔

ناقدین سارا زور قلم اور طاقت گفتار اس بات کو ثابت کرنے پر صرف کررہے ہیں کہ نواز شریف نے ووٹ دے کر یو ٹرن لے لیا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اگر یوٹرن سے مراد منزل پر پہنچنے کی جدوجہد میں حکمت عملی یا تدبیر کے بجائے اصول سے انحراف ہے تو پھر تو نواز شریف نے فی الواقع یو ٹر ن لیا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ہمیشہ آئین، قانون اور اصول کی پاسداری کرتے ہوئے فلاں کام کروں گا اور بعد میں وہ اس کے بر خلاف کر کے منزل پر پہنچنے کی کاوش کرتا ہے تو اسے ہم یو ٹرنر یا منافق یا ابن الوقت وغیرہ کہیں گے۔

لیکن اگر اس نے منزل تک پہنچنے کے لیے ضرورتاً یا مصلحتاً تدبیر یا حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے تو پھر ہم اسے ایک کامیاب اور وقت کا نباض فرد قرار دیں گے۔ ایک کپتان ہمیشہ یہ کہتا رہے کہ وہ کبھی امپائر کی مدد سے میچ نہیں جیتے گا بلکہ ایسا رسوا کن راستہ اختیار کر کے جیتنے کے بجائے باعزت طور پر ہار جائے مگر میچ کے وقت اپنے وعدوں کے برعکس امپائر کی مدد سے میچ جیتے تو اس نے اصول، آدرش اور نصب العین کا قتل کر دیا۔

جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو انہوں نے قطعی یو ٹرن نہیں لیا۔ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف نے جب ووٹ کو عزت دینے کی مہم شروع کی تو اس نعرے سے ان کی مراد سول بالا دستی کا قیام، آئین و قانون کی بالادستی اور فوج کو سیاسی عمل سے دور رکھنا تھا۔ نواز شریف اصولی طور پر کسی بھی حالت میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے خلاف ہیں۔ عمران خان نے جب اپنے سابقہ اور مشہور بیانیے سے رجوع کرتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کو مضحکہ خیز انداز سے ایکسٹینشن دینے کی کوشش کی تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے جب اس معاملے کو مستقل بنیادوں پر طے کرنے کے لیے پارلیمان کو بھیجا تو اس موقعے پر نواز شریف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ن لیگ اس حوالے سے ہونے والی قانون سازی میں حصہ نہیں لے گی یا خلاف ووٹ دے گی۔ وجہ یہ تھی کہ سروسز ایکٹ میں ترمیم کر کے ایسکٹینشن کا اختیار کلی طور پر وزیر اعظم کے ہاتھ میں دینا درحقیقت سول بالادستی کے قیام کی طرف بہت بڑا قدم تھا۔ ہم موجودہ وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ہٹ کر دیکھیں تو سیاسی جماعتوں کا ترمیم کے حق میں ووٹ دینا سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دینے ہی کے مترادف ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے ن لیگ کو یو ٹرن کا طعنہ دے کر اپنے بیانیے سے دستبردار ہونے کا الزام لگانا کسی طرح قرین انصاف نہیں کیونکہ نواز شریف نے اصول سے انحراف نہیں کیا بلکہ وقت و حالات کے مطابق حکمت عملی یا تدبیر میں تبدیلی کی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور ڈنڈا بردار حریف کے ساتھ لڑائی میں جوش کے بجائے ہوش سے کام نہ لیا جائے تو کمزور فریق ہاتھی کے مقابلے میں چیونٹی ثابت ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے میں اسٹیبلشمنٹ کا بنیادی ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاستدان بہتّر سال سے جاری اس مذموم کھیل کو ختم کر نے کی تدبیر کرتا ہے اور فوج الیکشنز میں مداخلت سے باز رہتی ہے تو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے کہ یہ سول بالادستی اور ووٹ کو عزت دینے کے بیانیے کی فتح ہو گی یا شکست؟

سیاستدان کے پاس بندوق، ٹینک، توپ یا لڑاکا طیارے نہیں ہوتے۔ اس کے پاس سیاسی بصیرت، دور اندیشی، مصلحت کوشی، تدبیر، فہم و فراست، معاملہ فہمی اور حکمت آموزی جیسا اثاثہ ہوتا ہے اور نواز شریف نے اگر اندھی اور بے پناہ طاقت کے مقابلے میں اس اثاثے کو بروئے کار لاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے شتر بے مہارکو نکیل ڈالی ہے جس سے ووٹ کی عزت اور سول بالادستی کا خواب شرمندہٕ تعبیر ہو گا تو اسے ہم ڈیل یا این آر او کا نام کیسے دے سکتے ہیں؟ میری رائے میں تو نواز شریف نے موجودہ حالات میں دستیاب وسائل و اسباب کے حساب سے اپنی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کے طفیل جو کچھ حاصل کر لیا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ وہ لعن طعن کے بجائے ستائش و شاباش کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments