آسڑیلیا کے جنگلات میں آگ پھیلانے والے عقاب : ”اک دیومالائی داستان یا حقیقت“


انسان کے آگ جلانے پر قادر ہونے سے تہذیب انسانی نے اک اہم مقام حاصل کیا۔ اس فن کو جاننے کے بعد انسان ٹھنڈ سے نبردآزما ہونے میں کامیاب ہوا اور اسُ نے شکار کیے ہوئے جانوروں کے گوشت کو پکا کر کھانا شروع کردیا۔ تاریخ اس بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہہ سکتی کہ انسان نے آگ جلانا کب سیکھا تھا البتہ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ برس قبل انسان نے آگ جلانا سیکھ لیا تھا۔ اس سے قبل انسان نے آگ کا مشاہدہ صرف قدرتی مظاہر مثال کے طور پر کسی آتش فشاں سے آگ نکلتے دیکھنا، بجلی گرنے سے آگ لگتے ہوئے دیکھنا یا بعض اوقات بارش کے بعد درختوں پر موجود بارش کے قطروں سے مرتکز ہونے والی سورج کی شعاعوں کی وجہہ سے لگی آگ دیکھنا تھا۔ ماہر بشریات کے اندازوں کے مطابق ابتدائی طور پر ”پاپوا نیو گنی“ اور افریقہ کے انسانوں نے پتھر کی رگڑ اور لکڑی کی رگڑ سے آگ جلانا سیکھ لی تھی۔

آج بھی اگر موسم اک لمبے عرصے تک خشک رہے اور مسلسل تیز ہوائیں چلیں تو خشک شاخوں کی رگڑ کے سبب جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے۔

آسٹریلیا کے جنگلات میں وسیع پیمانے پر پھیلنے والی آگ کو موجودہ دور کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس آگ میں لاکھوں کی تعداد میں جنگلی جانور جل کر ہلاک ہوئے ہیں اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا ہے۔ آگ کے اس وسیع پیمانے پر پھیلاؤ پر آخر کار آسٹریلوی ماہرین نے اس براعظم کے قدیم باشندوں ( Aborignal ) کی دانش پر کان دہرا، اس سے قبل اس بات کو اک دیومالائی داستان سمجھا جاتا تھا کہ آتشی عقاب ( فائر ہاکس ) آگ پھیلاتے ہیں۔

ان قدیم باشندوں کے مطابق عقاب کی اک خاص قسم آگ میں سے اپنا شکار ڈھونڈنے کے لئے جلتی ہوئی شاخوں کو اپنی چونچ میں اٹھا کر دوسری جگہوں پر لا پھینکتے ہیں جس سے آگ دوسری خشک جگہوں تک پہنچ جاتی ہے۔ آسٹریلوی ماہرین نے آگ سے متاثرہ علاقوں میں کیمرے نصب کرکے فلمبندی کی اور فائر ہاکس کی پروازوں کا مشاہدہ کیا۔ ان مشاہدات سے ان پر واضح ہوا کہ واقعی فائر ہاکس آتش شدہ جنگلات سے آگ لگی ہوئی شاخوں کو اٹھا کر پرواز کر رہے تھے۔

نیشنل جیوگرافک میں شائع ہونے والے اک مضمون میں بھی اس نظریہ کی تائید کی گئی ہے کہ فائر ہاکس کا آگ پھیلانے میں اہم کردار ہے۔ مضمون کے مصنف کے مشاہدے کے مطابق جب درختوں میں پناہ گزین حشرات اور جانور آگ کی تپش کی وجہہ سے باہر آتے ہیں تو ان عقابوں کی تیز نظریں ان کو دور ہی سے تاڑ لیتی ہیں۔ قارئین مضمون تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح یہ عقاب آگ کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں ورنہ عام طور پر ہر ذی روح آگ سے دور بھاگتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک میں شائع ہونے والے مضمون کے شریک مصنف ( Bob Grosford ) باب گروس فورڈ لکھتے ہیں کہ :

”میں نے خود مشاہدہ کیا کہ ایک عقاب نے اک جھلستی ہوئی شاخ کو اپنی چونچ میں اٹھایا اور اسے کوئی آدھا میل دور اک خشک جھاڑی میں پھینک دیا پھر خود قریب بیٹھ کر آگ لگنے سے جھاڑیوں سے باہر نکلنے والے جانوروں کا انتظار کرنے لگا تاکہ ان کا شکار کرکے اپنے پیٹ کی آگ کو بجھا سکے“۔

گروس فورڈ نے دوسرے آگ بجھانے والے عملے کے ساتھ ملکر بھی ان آتشی عقابوں کا مشاہدہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ عقاب آگ جان بوجھ کر لگا رہے ہیں یا آگ کا لگنا اک اتفاقی عمل ہوتا ہے۔ ابھی تک یہی خیال ہے کہ عقاب اپنے اس شکار پر حملہ کرتا ہے جو کہ جلی ہوئی شاخوں پر موجود ہوتا ہے، حملہ ناکام ہونے کی صورت میں عقاب جلی ہوئی شاخ کو اٹھا کر کچھ فاصلے پر گرا دیتا ہے جس سے اس جگہہ پر بھی آگ لگ جاتی ہے۔

مذکورہ بالا وجوہات سے قطع نظر اک بات پر ماہرین متفق ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، کم ہوتی ہوئی بارشیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے جنگلات شدید خطرے سے دو چار ہیں۔ آسٹریلیا کے جنگلات کے آگ کے اس بحران سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آگ پھیلانے والے عقابوں سے متعلق براعظم آسٹریلیا کے عظیم باشندوں کی باتیں دیو مالائی داستانیں نہیں تھیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments