عمران خان کی مایوسی اور مستقبل کا المناک سیاسی نقشہ


مایوسی کے گہرے بادل پاکستانی سیاست کے افق پر نمایاں ہیں۔ بظاہر آئین شکن آمر کے خلاف فیصلہ دینے والی عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ، ٹی وی اسٹوڈیو میں فوجی بوٹ کو میز پر رکھ کر ایک وفاقی وزیر کی گفتگو اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا ملک کے آئینی انتظام سے دست برداری کے اعلان کو اس مایوسی کی فوری اور اہم وجوہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

تاہم ان وجوہات کو قومی پریشانی اور نفسیاتی کشمکش کی فوری وجہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے قومی منظر نامہ پر ابھرنے والی مایوسی اور ڈیپریشن کی کیفیت کا تعلق دراصل لوگوں کے اس احساس سے ہے کہ مستقبل میں بہتری کے امکانات معدوم ہورہے ہیں۔ قومی سیاست ایک دائرے کا سفر کررہی ہے۔ معیشت بدستور دگرگوں ہے۔ سماجی سطح پر رویوں میں شدت آئی ہے اور انتہا پسندی جڑیں پکڑ رہی ہے۔ اس عوامل سے نمٹنے کے لئے کوئی منظم اور جامع کوشش دکھائی نہیں دیتی۔

یہ سوال اب غیر اہم اور ضمنی ہوچکا ہے کہ اس وقت ملک پر حکمران تحریک انصاف منتخب ہوکر اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی یا مقتدر حلقوں نے اس جماعت کو قومی معاملات کی اصلاح کے لئے اقتدار تک پہنچانا ضروری سمجھا تھا۔ اور اس مقصد کے لئے انتخابات کے دوران دباؤ کے آزمودہ طریقے آزمانے کے علاوہ بعد از انتخابات اس پارٹی کی حکومت سازی کے لئے پارلیمانی جوڑ توڑ کے ذریعے راہ ہموار کی گئی۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کے علاوہ اس پارٹی کے اقتدار کو یقینی بنانے والی قوتیں یکساں طور سے گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران سامنے آنے والی صورت حال سے نالاں ہیں۔

اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اگر سال رواں کے دوران نئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو تحریک انصاف پہلے جیسی بڑی کامیابی حاصل کرسکے۔ البتہ ساڑھے تین سو کی اسمبلی میں اب بھی عمران خان پچاس سو نشستیں لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اقتدار میں عمران خان جتنا وقت گزاریں گے ان کی مقبولیت کا گراف اتنا ہی کم ہوتا چلا جائے گا۔ اسی لئے یہ خبریں افشا ہونے لگی ہیں کہ اگر ان ہاؤس تبدیلی کی کوشش کی گئی تو عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کی پوری تیاری کرلی ہے۔ یہ خبریں دراصل عمران خان کی طرف سے یہ پیغام بھی ہوسکتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے تعاون پر تو تحریک انصاف مشکور و ممنون ہے اور اس شکرگزاری کے لئے حتی الامکان خدمت گزاری کا حق بھی ادا کرتی رہے گی لیکن اگر کسی وجہ سے اس کی سرپرستی سے گریز کیا گیا تو عمران خان آسانی سے یہ تبدیلی قلب قبول نہیں کریں گے بلکہ پوری ’فائٹ ‘ دیں گے۔

اس مرحلے پر گو کہ صرف یہ تاثر قائم کرنا کافی سمجھا جارہا ہے کہ’ اگر ہمیں کھیلنے نہ دیا گیا تو ہم بھی دوسروں کو آسانی سے کھیلنے نہیں دیں گے‘۔ اس لئے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کل تک عوامی حاکمیت، پارلیمنٹ کی خود مختاری اور ووٹ کو عزت دینے کے جس نعرے کا عَلم نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) میں ان کے دھڑے نے اٹھایا ہؤا تھا، وہی عَلم اب انہی نعروں کو الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ عمران خان اٹھانے کا اشارہ یا دھمکی دے رہے ہوں۔ اس بات کا فیصلہ مستقبل کی سیاسی صورت حال میں ہوگا کہ عمران خان اپنے ان ارادوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جس 22 سالہ سیاسی جد و جہد کا اعلان کرتے رہتے ہیں، اس کے دوران انہیں زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی ایک نشست مل سکی تھی یا انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سیاسی بادشاہ گروں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے کے بعد اگر عمران خان ایک بار پھر ماضی کی باغیانہ سیاست کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو ویسی ہی پذیرائی آسان نہیں ہوگی۔

سیاسی جد و جہد کے اُس دور میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے صرف سیاسی اشرافیہ ہی کو چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ اسٹبلشمنٹ اور اس کے ہرکاروں کے بارے میں بھی عمران خان کے وہی خیالات تھے جو کسی بھی جمہوریت پسند پاکستانی کے ہوسکتے ہیں۔ یہ تو اقتدار میں آنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے عمران خان نے سودے بازی کے شوق میں سیاسی قلابازیاں کھانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اسی لئے جس پرویز مشرف کو کل تک غدار اور آئین شکن قرار دیا جاتا تھا، اب اسی جماعت کی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ میں ان کی حمایت میں فیصلہ لینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ جو پارٹی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر اسٹبلشمنٹ سے ساز باز کا الزام لگاتے ہوئے اس بری روایت کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتی تھی، اب اس کا وفاقی وزیر ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ کو میز پر رکھ کر یہ واضح کرتا ہے کہ پارٹی کی طاقت کا اصل منبع کیا ہے۔

حکومت کے اتحادیوں کی طرف سے جس بےچینی کا کھلم کھلا اظہار ہونے لگا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ عمران خان کو مقتدر حلقوں میں پہلے جیسی پذیرائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی خیر سگالی کا پرانا ماحول موجود ہے۔ ایک امکان یہ ہوسکتا ہے کہ عمران خان درپردہ کوششوں سے اس دوری کو ایک بار پھر مکمل قربت میں بدلنے کی کوشش کریں۔ شاید کسی حد تک یہ کوششیں ہو بھی رہی ہوں لیکن ایک تو تحریک انصاف کے فیصل واڈا جیسے جیالوں کی بدزبانی اس انتظام میں رکاوٹ بنے گی۔ جو کام آج تک پس پردہ کئے جاتے رہے ہیں، اب ان کا اعلان فوجی بوٹ کی افسوسناک علامت کے ذریعے ٹیلی ویژن نشریات میں کیا جارہا ہے۔ دوسرے مقتدر حلقوں میں رائے سازی کسی ایک شخص کی الفت میں گرفتار ہوکر نہیں کی جاتی بلکہ ادارہ جاتی ضرورتوں اور معاشرے میں اس کی پوزیشن کا استحکام بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے طرز سیاست اور عملی میدان میں مکمل ناکامی کی وجہ سے مقتدر حلقوں میں بھی اس بارے میں یکسوئی ہونا قرین قیاس نہیں ہے۔ یہ شبہات جتنے مستحکم ہوں گے، عمران خان کی مشکلات میں اسی قدر اضافہ ہوگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد عمران خان اپنے حصے کی سب سے اہم بازی کھیل چکے ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں ہوسکتا کہ کوئی آرمی چیف کسی سیاسی لیڈر کے لئے اپنے ساتھیوں کی باتوں یا پریشانی پر کان نہیں دھرے گا۔

اس حوالے سے دو دیگر عوامل بھی قابل غور ہیں:

 1) حکومت گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران نہ تو معاشی شعبہ میں کوئی بہتری دکھانے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ ہی گورننس کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ حالانکہ ان ہی دو اسباب کی وجہ سے ہما ان کے سر پر بٹھایا گیا تھا۔

 2) جولائی 2018 کے انتخابات کے دوران اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کو سبق سکھانا اور اس کی قیادت کو غرور کی اس مسند سے نیچے اتارنا مقصود تھا کہ وہ عوامی حمایت سے مکمل اقتدار و اختیار حاصل کرسکتی ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے اس وقت عمران خان واحد آپشن تھے۔ اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ اب شہباز شریف پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہیں اور سروسز چیفس کے عہدوں کی توسیع و مراعات کے قانون کو منظور کروانے میں اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اطاعت گزاری کا ٹھوس ثبوت فراہم کرچکے ہیں۔ اب ایک طرف عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہورہی ہے تو دوسری طرف ’ مارکیٹ‘ میں عمران خان کے آپشنز موجود ہیں۔

اسمبلیاں توڑنے کی خبریں فی الوقت افواہوں کی صورت میں ہی موجود ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے خد وخال افواہوں کی بنیاد پر ہی تشکیل پاتے رہے ہیں۔ ورنہ سال بھر پہلے کون یہ سوچ سکتا تھا کہ سابق آرمی چیف کو پھانسی کی سزا کا اعلان کیا جاسکتا ہے اور پھر چند ہفتوں کے بعد یہ سزا دینے والی عدالت کو ختم کرواکے ڈیمیج کنٹرول کی ایسی کوشش کی جائے گی جس پراپنے پرائے سب ہی حیران ہوں۔ اس لئے جو خبریں افواہوں کی صورت مارکیٹ کی جارہی ہیں، ان کو مسترد کرنا آسان نہیں ہے۔ عمران خان کے پاس کسی بڑی شرمندگی سے بچنے کے لئے اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کروانے کا آپشن موجود ہے لیکن اس وقت ان کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں 156 نشستیں حاصل ہیں۔ کسی بھی مڈ ٹرم انتخاب میں انہیں اس سے زیادہ نشستیں جیتنے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ پھر وہ کیوں ان ہاؤس تبدیلی سے گھبرا کر اسمبلیاں توڑنے پر غور کریں گے؟ یہ بات عقلی دلیل کے لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے لیکن عمران خان غیر روایتی فیصلے کرنے کے عادی ہیں۔ اوّل تووہ کسی کی سنتے نہیں ہیں۔ اور جو لوگ ان پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے سیاسی تبحر کے بارے میں کچھ یقین سے کہنا ممکن نہیں ہے۔

درپردہ جو بھی کھچڑی پکائی جارہی ہو، اس سے ملک میں مایوسی کی کیفیت تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ آرمی ایکٹ ترامیم کی منظوری میں مسلم لیگ (ن) نے جو کردار ادا کیا ہے، اس کے بعد اگر اس پارٹی کو ان ہاؤس تبدیلی یا مڈ ٹرم انتخاب کے ذریعے اقتدار مل بھی جائے تو اسے چہروں کی تبدیلی کے ساتھ فیصلوں پر ایک ہی طاقت کی دسترس کے تسلسل کا نام ہی دیا جائے گا۔ نئے انتخابات کی صورت میں البتہ اب اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ قومی اسمبلی میں دو یا تین بڑی پارٹیوں کی بجائے درمیانے درجے کی کئی پارٹیاں دکھائی دینے لگیں۔ اس طرح وزیر اعظم بنانے کے لئے آپشنز تو وافر مقدار میں دستیاب ہوجائیں گے لیکن ملک میں پچاس کی دہائی والا طوائف الملوکی کا دور واپس آسکتا ہے۔ اس صورت حال میں ملک کے مسائل اور عوام کے کرب میں اضافہ ہوگا۔

ملک و قوم اور موجودہ حکومت کے لئے بہترین حل تو یہی ہے کہ عمران خان اپوزیشن کی سرکوبی کا خواب دیکھنے کی بجائے امور حکومت کی طرف توجہ دیں اور عوام کا حکومت و ریاست پر اعتماد اور سرمایہ کاروں کا پاکستانی معیشت پر اعتبار بحال کرنے کی کوشش کریں۔ وزیر اعظم کے اختیارات کا تعین کرنے والے بھی اگر انہیں اس منزل کی طرف گامزن کرسکیں تو بحران پر قابو پانے کے کام کا آغاز ہوسکتا ہے۔

 بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہم مسائل سے نکلنے کا آسان راستہ اختیار کرنا کسر شان سمجھتے ہیں۔ امور سیاست و مملکت دیکھنے والے اگر ذات کے حصار سے باہر نہ نکل پائے تو سیاست کا اونٹ خواہ کسی کروٹ بیٹھے، عوام کی مایوسی و بدحواسی میں اضافہ ہی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments