خدا، فطرت اور خلیل الرحمان کا مرد


قلم کاٹ دار ہونا، چرب زبان ہونا یا پھر کسی ڈائیلاگ کا مقبول عام ہونا اس کے درست ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا، بلکہ اکثر اوقات خالی اذہان ہی اونچا لہجہ رکھا کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ڈرامہ خاصہ مقبول ہوا، حیران کن طور پر ڈرامے کے ساتھ ہی لکھاری کی بھی شہرت ہونے لگی۔ لکھاری صاحب کا ایک کلپ نظر سے گزرا موصوف فرماتے ہیں کہ خدا نے مرد کو اپنی فطرت پر پیدا کیا، جیسے خدا شرک برداشت نہیں کرتا ویسے ہی مرد بھی شرک برداشت نہیں کرتا۔ اس ڈائیلاگ کے بعد کمرہ تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ جبکہ میں یہ ڈائیلاگ سننے کے بعد ابھی تک اس مرد کو تلاش کررہا ہوں جس کا ذکر ڈرامہ نگار فرمارہے ہیں۔

پہلا سوال تو یہ کہ کیا خدا نے صرف مسلمان مرد کو ہی اپنی فطرت دے کر پیدا کیا ہے یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں اور لادین مردوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے؟ کیا امریکا یا برطانیہ میں بسنے والے مرد کو بھی خدا نے اس انعام سے نواز رکھا ہے یا یہ عنایت صرف پاکستان کے مرد پر ہی ہوئی ہے؟

دوسرا سوال یہ کہ اگر ایسا ہے تو کیا اس سے متعلق قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں میں کوئی ذکر موجود ہے یا کوئی حدیث؟ کوئی مذہبی حوالہ؟

تیسرا سوال یہ کہ سائنسی اعتبار سے ایسی کوئی تحقیق جو یہ بات ثابت کرتی ہو؟

اب آتے ہیں ڈائیلاگ کی جانب کہ مرد شرک برداشت نہیں کرتا! میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ مرد نہ صرف شرک برداشت کرتا ہے بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے مختلف قسم کے رجحانات رکھنے والے مرد اور خواتین ہوتے ہیں۔ بہرحال ہمارے ہی دیس میں تھری سم یعنی کہ دو مردوں اور ایک خاتون کے درمیان جنسی تعلق کوئی بہت انہونی بات نہیں ہے۔ اب اگر خاتون ایک ہے اور مرد دو تو مصنف  کے مطابق شرک نہیں تو کیا ہورہا ہے؟ کیا تینوں لطف اندوز نہیں ہورہے؟

پھر دوسری بات یہ کہ بہت سے آزاد خیال جوڑے بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان ہی میں وائف سویپ پارٹیز بھی ہوتی ہیں اور کی کلب بھی موجود ہیں۔ یہاں میرا موضوع کی کلب نہیں اتنا سمجھ لیں کہ ایک جگہ پر مختلف کمروں کی چابیوں کو جمع کرلیا جاتا ہے، آپ اپنی پسند کی چابی اٹھائیں اور اس نمبر کے کمرے میں چلے جائیں، اب وہاں جو بھی خاتون یا مرد موجود ہوں آپ کا نصیب۔ یہ سب اور بہت کچھ بھی شراکت کے ذمرے میں نہیں آتا کیا؟

کسی بھی حقوق نسواں پر کام کرنے والے ادارے سے رابطہ کرلیں پاکستان میں بھی ایسے بہت سے مرد ملیں گے جو شادی کے بعد اپنی بیویوں سے دھندا کراتے ہیں، ایک یا دو نہیں ان گنت مردوں سے ان کی بیویاں تعلق قائم کرتی ہیں، اکثر تو گراہک وہ خود ڈھونڈ کر لاتے ہیں تو کیا اسے شراکت نہیں کہا جائے گا؟ کیا یہ سب مرد نہیں ہیں؟

رواں ہفتے بی بی سی نے بھارت سے متعلق ایک رپورٹ نشر کی تھی، جس میں بھارت کی ایک ریاست میں مسلمان اپنی کمسن بچیوں کو عرب شیخوں کے ہاتھوں فروخت کررہے ہیں۔ یعنی کے تیرہ، چودہ سال کی بچی کا ستر بہتر سال کے بڈھے سے ایک رات کا نکاح کرایا جاتا ہے اور پھر شیخ غائب ہوجاتے ہیں، رجسٹرڈ کیسز کی تعداد چالیس سے زائد بتائی گئی۔ فروخت کرنے والا باپ، مسلمان اور مرد، خریدنے والا بھی ویسا ہی کوئی۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

اب سوال اٹھتا ہے کہ اگر مرد شرک برداشت نہیں کرتا تو وہ کیا کرتا ہے؟ وہ کاروکاری کرتا ہے، وہ محلوں میں خاتون کو برہنہ کرتا ہے، مرد غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے، مرد تیزاب گردی کرتا ہے، اور مرد ہلکہ پھلکا تشدد کرتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ڈرامہ نگار کی دلیل ایسے سب ہی جنونیوں کو جواز فراہم کرتی ہے، یہ سب اور بہت سے جرائم کرنے کا۔ کتنا آسان ہے۔ عورت پر بے وفائی کا شراکت کا الزام لگاؤ اور اس کی جان لے لو، یا اگر زندہ چھوڑ بھی دو تو ایسے کہ وہ سانسیں تو لے مگر زندہ نہ ہو۔

کہاں مرد؟ کہاں خدا اور اس کی فطرت۔ میں تو حیران ہوں ایک دو ٹکے کے ڈائیلاگ پر کمرے میں بیٹھی خواتین تالیاں کیوں پیٹ رہی تھیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments