فاسٹ بولر، سیاست اور بوٹ


زندگی میں کسی سے بھی مقابلہ کرنا ہو تو سب سے پہلے اپنے مدِ مخالف کی جسمانی و ذہنی کمزوروں کو جانچنا اور اُس کی طاقتور حربے کا توڑ سوچنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی فٹ بال ٹیم کے خلاف کھیل رہے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے اُس ٹیم کے کھلاڑیوں بارے جاننا ہوگا کہ آیا اُن کا فارورڈ بہت تیز ہے، اُن کا گول کپبر بہت جست پھرتیلا یا اُن کا فل بیک میدان کے کسی بھی حصے سے فاول کک ملنے پر گول کر سکتا ہے؟

سیاست دان بھی دورانِ الیکشن اِس نقطے کو مدنظر رکھتے ہیں۔ یوں مخالف کے ساتھیوں کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُس کے مضبوط گڑھ میں موجود پولنگ اسٹیشنز پر فساد کروایا جاتا ہے تا کہ پولنگ روکی یا سلو کی جا سکے۔

مسلم نواز لیگ کے لیڈرز کو بھی اپنی مخالف قوتوں اور سیاستدانوں کو پہلے جانچنا چاہیے تھا مگر وہ خوش فہمی کا شکار رپیں کہ عوام کی طاقت سے الیکشن جیت جائیں گے یا پھر عوام کو سڑکوں پر نکال کر طاقت ور حلقوں کی آرا اپنے حق میں کر لیں گے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ غلط تھے۔

مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے ملک میں ایسے حالات بنے کہ نواز لیگ کچھ وقت کے لیے مراعات لینے میں کامیاب ہوگئی، مگر دوسری بار پھر وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اپنے کارڈ درستی سے نہ کھیل سکے۔

نواز شریف ضدی ہٹ دھرم ہونے کے ساتھ ساتھ بزنس مین بھی ہیں تو وہ ہمیشہ سودے میں زیادہ سے زیادہ منافق حاصل کرنا چاہتا ہے پھر گاہک کو جاتا دیکھ کر اپنا منافع کم کرنا شروع کرتے ہیں، لیکن اگر گاہک بالکل ہی منہ موڑنے کے موڈ میں ہو تو نو پرافٹ نو لاس میں صرف کرایہ کے پیسے گاہک پر ڈال کر چیز بیچ دیتے ہیں۔

اب بھی ایسا ہی ہوا، پہلے اُنھوں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اچھا خاصا منافع کمانے کی کوشش کی۔ اُن کا خیال تھا کہ اُن کے مخالفین اُنھیں با عزت بری کر دیں گے اور اُن کا ستارہ بلندی کی طرف پرواز کرے گا مگر دشمن کو ہلکا لینا انھیں مہنگا پڑا۔

پھر اُنھوں نے جی ٹی روڈ سے لاہور جاتے ہوئے اپنا منافع کم کر کے دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کی مگر فیصلے فاتح کرتے ہیں اور مفتوح کی کوئی بات نہیں مانی جاتی تو وہ وار بھی خالی گیا۔

پھر لندن سے واپسی عدالت، جیل، ووٹ کو عزت دو، کے نعرے، مریم نواز کے جلسے جلوس، عوام کو باہر نکال کر نو پرافٹ نو لاس میں معاملہ نپٹانے کی کوشش کی گئی مگر بات نہ بنی۔ پھر شہباز شریف کی آمد ہوئی جو نواز شریف کی نسبتا زیادہ ہوشیار اور جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، اُنھوں نے مولانا فضل الرحٰمن کا اسٹیج استعمال کرتے ہوئے صرف ٹرانسپورٹیشن کی رقم پر دوبارہ کام کرنے کی آفر دی جو طاقتور حلقوں نے سنجیدہ لی اور مذاکر ات شروع ہوئے۔ اِس دوران پرویز الہی کے انٹریوز بھی قابل غور تھے۔ کپتان نے فورا ہوا کا رخ محسوس کر لیا اور اُنھوں نے گیم چینچرز کو اپنی سیٹ کی فکر ڈال دی۔

عمران خان ایک کامیاب کپتان ہیں وہ اپنی ٹیم کو لڑانا، اُن کی پلیسمنٹ کرنا خوب جانتا ہے تو اُس نے ایکسٹینش کا کیس جان بوجھ کر روکے رکھا پھر ایک تقریب میں چیف جسٹس کو مشورہ دے کر اپنے طرف متوجہ کیا۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ایکسٹینش والے معاملے میں پہلے خود سقم چھوڑا، پھر شق تبدیل کرتے وقت جان بوجھ کر غلطی کی کیونکہ وہ نواز شریف کا حال دیکھ چکے تھے اُنھیں معلوم تھا کہ دفاعی پوزیشن پر رہنے سے نقصان ہوتا ہے اچھا کھلاڑی وہ ہوتا ہے جو بال اپنے مخالف کی کورٹ میں ڈالے رکھے اور ہمیشہ اٹیکینگ پوزیشن پر رہے۔ کیونکہ جب تک اُن کا کام آپ میں پھنسا رہے گا وہ آپ کو ہلا نہیں پائیں گے۔ کیونکہ اب تک اُن کے رویے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ کام نکلنے اُن کا موڈ بدل جاتا ہے۔

یوں میرے کپتان نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ اب نواز لیگ یا پی پی ایکسٹینشن والے معاملے میں حکومت کا ساتھ نہ دیتیں تو جن سے عمران کو خطرہ محسوس ہوا تھا اُن کا رخ اِن جماعتوں کی طرف ہو جاتا اور کپتان کے مزے ہوجاتے اور ایک بار پھر وہ ہی واحد چوائس، آخری امید رہ جاتا اور اس کی حکومت جانے کے امکانات ختم ہو جاتے۔

اگر مخالف سیاسی جماعتیں اِس قانون کے حق میں ووٹ دیتیں، جس کی اُسے ایک فیصد بھی امید نہ تھی، تو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ متاثر ہوتا اور مخالفیں کو اپنے ووٹرز سے گالیاں پڑتیں۔

اس کام کے لیے اُس نے وزیروں سے ایسے بیانات بھی دلوائے جن سے اپوزیشن کا غصہ بڑھے اور وہ اِس کے دام میں با آسانی آ جائیں یوں عمران نے ایک منجھے ہوئے کپتان کی طرح اپنے کارڈز کھیلے اور کامیاب بھی ہورہا تھا۔ مگر بزنس مین مخالف کو گرانے یا مارکیٹ سے نکالنے کو کب کم سے کم ٹینڈر کی بولی دے کر ٹھیکہ پکڑ لے اس کا اُسے اندازہ نہ تھا۔

شنید میں ایسا بھی آیا کہ عمران نے چند لوگوں سے ذکر کیا کہ وہ استعفی نہیں دیں گے بلکہ اسمبلی توڑنے کا کہہ دیں گے یعنی نہ ”کھیڈا گے تے نا کھیڈن دھیا گے“ والی پالیسی اپنائی مگر اس بات کو کوئی خاص توجہ نہ مل سکی۔

کپتان کی مثال ایسی ہی ہے کہ اپنا ”ککھ نہیں تے تیلا دوجے دا نہیں چھوڑنا“ انھوں نے کل میڈیا میں اپنا سب سے طاقتور پتا شو کروایا۔ اپنے سب سے قریبی دوست فیصل واوڈا کو فوجی جوتے سمیت ایک لائیو پروگرام میں بھیج دیا۔

یہ حرکت کر کے عمران نے دوبارہ ایک تیر سے دوشکار کرنے کی کوشش کی۔ فاسٹ، جذبانی اور فیوریس بولر کی طرح اُس نے مخالف کھلاڑی کو غصہ دلوانے کی کوشش کی تا کہ وہ غلطی کرے اور اپنی سیٹ کھو دے۔

اگر مخالف نے غصے یا کوئی جذباتی فیصلہ نہ کیا تو عوام کو کھلا اور سیدھا پیغام تو مل جائے گا کہ یہ سب کروانے والے کون ہیں؟ اس کی حکومت کیوں ناکام رہی وہ کیوں نہ اپنے وعدے پورے کر سکا، اسے کیا مجبوری تھی؟ یہ سب بتانے کو بوٹ کا استعارہ استعمال کیا گیا۔ اب عمران حکومت چلی بھی گئی تو جیت اس کی ہو گی کیونکہ وہ میڈیا میں بتا چکا کہ مخالفین بوٹ چاٹ کر یعنی بوٹوں والوں سے مل کر دوبارہ آ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ووٹرز کو بوٹ والوں کی طرف سے بدگمان کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اب اگر حکومت گئی تو ”مجھے اس لیے نکالا“ کا بیانیہ مضبوط ہوگا اور اگر ادارہ خاموش رہا تو خاموشی ویسے ہی نیم رضامندی ہوتی ہے، کا ڈھول پیٹا جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس حرکت کے بعد پی پی اور نواز لیگ اپنے کارکنوں اور پروگرام میں شرمندہ ہوئے لیڈرز کو کیا جواب دے پاتی ہیں؟ کیا وہ اِس چال کو سمجھتے ہوئے صبر و تحمل سے دشمن پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں یا ایک فاسٹ بولر کی جانب سے کریس پر سیٹ ہوتے پلیر کو غصہ دلوا کر اُس کی وکٹ لینے کی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ یا پھر نواز لیگ برداشت تحمل اور بردباری سے دشمن کو ہرانے ہر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو بھی ہو اب عمران نے مستقبل میں زندہ رہنے اور ہیرو بننے اور اپنے ووٹرز کو بنانے کے لیے چند اچھے کام نوٹ کروا لیے ہیں، جن میں طاقتور کو نیکل ڈالنا، پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنا اور طاقتور کرپٹ حکمرانوں کو جیلوں میں ٹھوسنا شامل ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ادارے کی جانب سے عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور یونیفارم کے اہم جز کی جگ ہنسائی پر عمران کے تقلقات خراب ہو جائیں اور وہ پیج سے کھسک جائیں لیکن عمران جہموریت اور آمریت بارے اپنے بائیس سالہ سیاسی بیانیے کی لاج رکھنے کا کریڈٹ مرتے دم تک لیتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments