منڈے ہوئے سر کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا


ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک کے پارلیمان میں بہت ہلچل مچ گئی۔ اس کی وجہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک وزیر کا سر اچانک استرے سے منڈا ہوا پایا گیا تھا۔ ایک دن پہلے تک اس وزیر کے سرپر خوبصورت گھنگھریالے لمبے بال تھے لیکن اب وہ نہیں تھے۔ پارلیمان کے اراکین اس وزیر کو دیکھ دیکھ کر سرگوشیاں کرنے لگے کہ وزیر کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہوگا؟ سب قیاس آرائیاں کررہے تھے۔ کسی نے کہا کہ سر میں جوؤں کے باعث بال منڈوا دیے گئے ہوں گے۔

کسی نے کہا کہ ہوسکتا ہے دماغ کو تروتازہ کرنے کے لیے بالوں کے بوجھ کو ختم کردیا گیا ہو۔ کسی نے کہا کہ شاید وزیر کے اہل خانہ میں کوئی موت واقع ہوگئی ہوگی جس کے سوگ میں انہوں نے سرمنڈوا لیا۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن نے پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر کو مخاطب کرکے سوال کیا کہ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ معزز وزیر کے اہل خانہ میں کوئی فوت ہوا ہے؟ اس پر وزیر موصوف نے جواب دیا نہیں۔ ایوان میں پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں کہ کہیں اپوزیشن والوں نے ہی وزیر کا سر منڈوا نہ دیا ہو کیونکہ وہی وزیر اپوزیشن کے خلاف بل منظور کروانے والے تھے۔

ایک ممبر نے کھڑے ہوکر سپیکر سے پوچھا کہ جناب سپیکر کیا وزیر موصوف کو معلوم بھی ہے کہ ان کا سر منڈا ہوا ہے اور کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ وزیر نے بڑے نرم لہجے میں جواب دیا کہ میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا سر منڈا ہوا ہے یا نہیں۔ اس پر بہت سے ممبران یک زبان ہوکر چیخے کہ آپ کا منڈا ہوا سرہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ وزیر نے جواب دیا ہمیں ہرکسی کی بات پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔

یہ صرف حکومت بتا سکتی ہے کہ میرا سر منڈا ہوا ہے یا نہیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ اس کی تصدیق ابھی ہوسکتی ہے، وزیر موصوف اپنے سرپر ہاتھ پھیر کر دیکھ لیں۔ وزیر نے بڑی بردباری اور تحمل سے جواب دیا کہ میں اپنے سرپر ہاتھ نہیں پھیروں گا۔ حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ البتہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس بارے میں پوری تحقیقات کی جائیں گی اور رپورٹ ایوان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ ممبران نے بنچوں پر کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ اس معاملے میں حکومتی تحقیقات کی کیا ضرورت ہے؟

منڈا ہوا سر وزیر موصوف کا ہے، وہ اپنے ہاتھ سے خود چیک کرلیں کہ ان کے سرپر بال ہیں یا نہیں۔ وزیر نے کہا میں ممبران سے اتفاق کرتا ہوں کہ سر میرا ہے اور ہاتھ بھی میرے ہیں لیکن ہمارے ہاتھ قوانین میں بندھے ہوئے ہیں۔ میں قوانین کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتا۔ حکومت قوانین کے تحت چلتی ہے۔ میں اپوزیشن کے دباؤ میں اس نظام کو توڑ نہیں سکتا۔ میں پارلیمنٹ کے شام والے اجلاس میں اس حوالے سے پالیسی بیان دوں گا۔

شام کے اجلاس میں وزیر نے ایک بیان دیا۔ جناب سپیکر ایوان میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ میں نے سرمنڈوایا تھا یا نہیں؟ اگر یہ ہوا ہے تو پھر یہ کس نے کیا؟ یہ سوالات بہت پیچیدہ اور حساس ہیں۔ حکومت اس پر جلدبازی میں فیصلہ نہیں لے سکتی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا سرمنڈا ہوا ہے یا نہیں۔ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ ہماری حکومت تین اراکین پارلیمنٹ پرمشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیتی ہے جو اس معاملے کی باریک بینی سے تحقیقات کرے گی۔

میں انکوائری کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کروں گا۔ ممبروں نے کہا یہ قطب مینار کا معاملہ نہیں ہے جو برسوں تک تفتیش کے لیے کھڑا رہے گا۔ یہ آپ کے بالوں کا معاملہ ہے جو بڑھتے اور کٹتے رہتے ہیں۔ اس معاملے کا فیصلہ فوری ہوسکتا ہے۔ وزیر نے جواب دیا ممبروں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ قطب مینار سے میرے بالوں کا موازنہ کرکے میرا استحقاق مجروح کریں۔ جہاں تک اصل مسئلے کا تعلق ہے، حکومت انکوائری سے پہلے کچھ نہیں کہہ سکتی۔

انکوائری کمیٹی اس معاملے پر ہرپہلو سے ہفتوں تحقیق کرتی رہی۔ اس دوران وزیر موصوف کے بال بڑھتے رہے۔ کچھ مہینوں بعد وزیر نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کردی۔ انکوائری کمیٹی کا فیصلہ یہ تھا کہ وزیر کا سرمنڈا ہوا نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے ممبروں نے خوش دلی سے ڈیسک بجاکر اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا۔ اپوزیشن کی طرف سے شیم شیم اور کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اپوزیشن والے احتجاجاً نعرے لگاتے ہوئے سپیکر کے ڈائس کے سامنے آگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ وزیر موصوف کا سرمنڈا ہوا تھا۔ اس موقع پر وزیر موصوف مسکراتے ہوئے کھڑے ہوئے اور سپیکر سے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر وزیر موصوف نے اپوزیشن کو کہا کہ میرا سرمنڈا ہوا ہونا آپ کا خیال ہوسکتا ہے جس کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اِس وقت میرے سرکو دیکھ کر ثبوت پیش کرتے ہیں تو میں آپ سے اتفاق کرلوں گا۔ یہ کہہ کر وزیر موصوف نے بڑے فخریہ انداز سے اپنے نئے اُگے ہوئے گھنگھریالے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور ایوان دوسری قانون سازی میں مصروف ہوگیا۔

ہمارے ہاں بھی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جن پر پارلیمان میں ہفتوں شورشرابا رہتا ہے۔ پھر اچانک وہ خبریں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ دوسری خبریں لے لیتی ہیں جن پر نئے سرے سے پارلیمان شور شرابے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ مثلاً ن لیگ کو لوٹے ہوئے اربوں روپے واپس کرنے ہوں گے، شریف خاندان کو سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنی ہوگی، شریف مافیا تاریخ کا حصہ بن گیا ہے لیکن پھر یہ خبر آتی ہے کہ لندن میں شریف فیملی کے ساتھ خفیہ پیغامات کا تبادلہ ہورہا ہے اور معاملات ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔

کبھی یہ خبر آتی ہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور وغیرہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں بری طرح پھنس چکے ہیں، ان کی بے نامی جائیدادوں کا حساب لگایا جارہا ہے، قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا ایک ایک پیسہ آصف علی زرداری خاندان سے واپس لیا جائے گا لیکن پھر یہ خبر آتی ہے کہ پلی بارگین کے تحت معاملات طے ہو رہے ہیں اور ایک دن پتا چلتا ہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں اور سُدھار شروع ہوگیا ہے۔

چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی پر بڑی نظریں جمی ہوتی ہیں لیکن پتا چلتا ہے کہ تمام معاملات بڑی خوش اسلوبی سے متفقہ طور پر پارلیمنٹ میں منظور ہو گئے ہیں کیونکہ یہ قومی اہمیت کا معاملہ تھا جس پر سب ایک پیج پر ہیں۔ میڈیا کے سمندر میں اُس وقت شدید لہریں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں جب خصوصی عدالت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سناتی ہے۔ کوئی اِسے تاریخ ساز فیصلہ کہتا ہے، کوئی اِسے ملک کی توہین گردانتا ہے۔

ہرطرف زوروشور سے بحث ہونے لگتی ہے۔ پھر یہ خبر آتی ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے اور اب لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت غیرآئینی قرار دے دی گئی ہے۔ گویا اب عوام حسبِ سابق اپنے اپنے وقت کی مندرجہ بالا حساس خبروں کو پیچھے چھوڑ کر نئی خبروں کے شور شرابے میں گم ہو جائیں گے۔ یعنی بال اُگ جانے کے باعث منڈے ہوئے سرکا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments