دیریلس ارطغرل کا سحر جذبات کو ابھارتا ہے


کسے خبر تھی کہ اوغوز ترکوں کی رگوں میں بہادری، جوانمردی اور جان نثاری کا خون کچھ یوں سرائیت کرے گا کہ رہتی دنیا تک ان کو یاد کیا جائے گا۔ کسے معلوم تھا کہ تیرویں صدی جو مسلمانوں کے خلاف فتنوں سے بھرپور جال بچھانے والوں کی صدی تھی میں اوغوز ترکوں کی نئی نسل بیداری کی انگڑائیاں اور نئے جذبوں کے ساتھ اپنا وطن بنانے کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کا ارادہ کرے گی۔ چنگیز خان کا قہر، صلیبیوں کے ظلم اور سلجوقیوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے ہر جگہ مسلمان کچلے جارہے تھے لیکن خانہ بدوش خیموں کے اندر ایسے لوگ موجود تھے جن کے ذہنوں پر اپنے لئے زمین کا ایک مستقل ٹکڑا حاصل کرنے کا بھوت سوار تھا۔

ان خانہ بدوشوں نے زمین کا ایک مستقل ٹکڑا تو حاصل کیا لیکن ان پر دست شفقت رکھنے والی مضبوط سلطنت جو الف ارسلان نے اپنے خون سے سینچی تھی محلاتی سازشوں کی وجہ سے پارہ پارہ ہوگئی۔ عثمان غازی اول سے لے کر خلافت کے بکھرنے تک ہزار داستانیں ہیں جس میں اپنوں کی غداریاں اور دشمنوں کے بے شمار مظالم موجود ہیں۔

آپ اگر تاریخ میں گم ہونا چاہتے ہیں تو اوغوز ترکوں کی جدوجہد کا مطالعہ ضرور کیجیئے۔

خلافت عثمانیہ کا اپنا ایک طویل سحر ہے اور اس سحر کو چارسوں پھیلانے میں ترکی کے ڈرامے دیریلس ارطغرل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کوئی کیسے انکار کرسکتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کی پیشن گوئی جو قسطنطنیہ کے فتح کے حوالے سے تھی اوغوز ترک عثمانیوں کے حصے میں آئی۔ یہ 1453 کی بات ہے جب قسطنطنیہ کی دیوراروں سے اوغوز ترکوں کا طوفان ٹکرایا اور قسطنطنیہ جو عیسائیوں کا مضبوط گڑھ تھا مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ یاد رہے کہ اس پیشن گوئی کو جو ایک حدیث کی صورت میں تھی ثابت کرنے کے لئے مسلمانوں نے تقریباً نو سو سال قسطنطنیہ پر تابڑ توڑ حملے کیے اور بے تحاشا وسائل قربان کیے لیکن فتح جن کے نصیب میں تھی وہ عثمانی ترک تھے۔

دیریلس ارطغرل کا سحر جذبات کو ابھارتا ہے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔

یہ ڈرامہ اپنی نوعیت کا ایک کمال شاہکار ہے جس میں تیرویں صدی کے حالات کا نقشہ بخوبی کھینچا گیا ہے۔ خوب صورت وادیاں، بہتے چشمے اور تھکے ماندہ خانہ بدوش جن کے سامنے دن رات بھوک و افلاس کے منڈلاتے سائے اور ذہنوں پر سوار نئے وطن کے حصول کا جذبہ کیفیات کو بدل کر رکھ دیتا ہے اور کچھ ایسے خیالات ذہن ہر حاوی ہوجاتے ہیں جن سے اندر ہی اندر ایک سحر جنم لے لیتا ہے۔ خانہ بدوش قبائل کے خیموں کے اندر نئے وطن کے حصول کے لئے پالیسیاں بنتی ہیں جن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نوجوان اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لئے ڈٹ جاتے ہیں۔

نہ ختم ہونے والے بے شمار مسائل میں گھرے خانہ بدوش بات بات پر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں جس سے دلوں کو نئی امنگ ملتی ہے خاص طور پر جب بھی ابن عربی کی آمد ہوتی ہے تو پورا سماء بدل جاتا ہے۔ ابن عربی اور ارطغرل غازی کے روحانی تعلق کو بہترین انداز میں دکھایا گیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی ہے کہ تصوف اور اسلام کے سائے میں جب تلواروں اور تیروں کا ملاپ ہوتا ہے تو ایسی ہی ریاستیں جنم لیتی ہیں جس طرح خلافت عثمانیہ میں تھیں۔

غدار اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون سونے کے چند سکوں اور حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بہاتے ہیں۔ بھاگتے گھوڑوں کی ہنہناہٹ، خوب صورت وادیوں میں بہتے چشمے اور زندگی میں نئی روح پھونکنے کے لئے خانہ بدوش مجاہدوں کی بھاگ دوڑ جس میں ایک طرف تو مستقل ہجرت کی غورفکر ہوتی ہے اور دوسری طرف تلواروں کو زنگ لگنے کا ڈر۔

ڈرامے پر اعتراضات بھی اٹھائے گئے لیکن سحر کا نہ ٹوٹنا تھا نہ ٹوٹا۔ غداروں کی کارستانیاں چند سکوں کی خاطر ہم کبھی نہیں جھٹلاسکتے یہ ہماری تاریخ کا ایک مستقل حصہ ہے۔ ہوسکتا ہے فکشن اور مبالغے سے کام لیا گیا ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ ارتغرل غازی اور ان کی نسل میں کوئی تو بات تھی جو اللہ نے سات سو سال تک پوری دنیا پر حاکم بن کر چھائے رہنے کی توفیق عطا فرمائی۔ غداری سے یہ سفر ڈرامے میں شروع ہوا اور حقیقت میں ”لارینس آف عریبیہ“ پر ختم ہوا۔

اس ڈرامے کے سحر ہی کا کمال ہے کہ جتنے بھی لوگ دیکھ رہے ہیں ان میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور ایک نئی ذہن سازی ہورہی ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس ڈرامے کی وجہ سے ترک یہ دعوٰی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسلامی دنیا کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ان میں اتنا اعتماد ہے تو بے شک وہ ہی کریں۔ رہنمائی کرنے کے لئے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے خودی اور استقامت جو دونوں ترک قوم میں موجود ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ حق ادا کرسکتے ہیں تو بے شک وہ ہی کریں اور جہاں تک ”دیریلس ارطغرل“ کی بات ہے تو جس خوب صورت طریقے سے ترکی نے اس ڈرامے میں اپنا شاندار ماضی دکھایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

یہ بے شک نیا دور ہے جس میں سب کچھ بدل رہا ہے۔ ہم سالوں سے تاریخ کا رونا رو رہے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل تاریخ نہیں ملی۔ ہمارے ارباب اختیار اگر اپنی تاریخ پر صحیح معنوں میں ایسے ڈرامے یا فلمیں بنانا شروع کردیں تو کوئی مشکل نہیں کہ ہم فتنوں سے بچ سکیں۔

بٹن دبانے کی ضرورت ہے جس دن حقیقی معنوں میں نیک مقاصد کے حصول کے لئے یہ بٹن دبایا جائے گا ”دیریلس ارطغرل“ جیسے شاہکار بنیں گے اور پھر کوئی فتنہ پھلے پھولے گا اور نہ ملک کے نوجوانوں کے لئے حریم شاہ ٹاپ ٹرینڈ بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments