میرے شوہر کا لکھا وہ ایک خط جو آج تک مجھ سے جلایا نہ گیا


گزرے پل کو یاد کرتے کتنے کاغذ جلائے میں نے؛ بہت کچھ بھسم کیا، پر ایک خط ہے، جو جلایا نہ گیا۔ جب جب اس خط کو کھولوں، اس میں لپٹی 6 مئی 1996ء کی وہ سرمئی شام یاد آتی ہے۔ یادش بخیر، بھوربن کے پنج ستارہ ہوٹل کی لابی میں موسیقی کے لیے ایک جگہ مختص تھی۔ اس شام میں اپنے شوہر کے ہم راہ، سبز رنگ کے جوڑے میں ملبوس وہاں موجود تھی۔ شانوں پر اجرک اوڑھے ایک نو جوان وہاں بیٹھا، گانا سن رہا تھا۔ ایسے میں اس نو جوان نے منیجر سے درخواست کی، کہ اسے بھی ایک بار گانے کا موقع دیا جائے۔

منیجر نے اس کی فرمایش کو رد کر دیا، مبادا حاضرین کو نا گوار ہو۔ میں نے اس شخص کو منیجر سے التجا کرتے سن لیا تھا۔ نہ جانے میرے من میں کیا سمائی، کہ میں نے کہا، یہ میرے عزیزہیں، انھیں ایک موقع دیا جائے۔ منیجر سے معزز مہمان کی فرمایش ٹھکرائی نہ گئی۔ اس شخص نے تعارف پیش کیا, کہ وہ نصرت فتح علی خان کا شاگرد ہے۔ جب اس نے گانا شروع کیا، تو تفریق کرنا مشکل تھا، کہ یہ نصرت فتح علی خان گا رہے ہیں، یا کوئی اور۔ وہ دو بند گا کے اٹھنے لگا، تو میرے شوہر نے فرمایش کی کہ ہمیں مزید انھی سے سننا ہے۔ وہ نوجوان گاتا رہا، اور اس شام وہ سماں بندھا، کہ تمام حاضرین محفل اپنی جگہ جامد رہ گئے۔

وہ رنگین لمحے جب میں اور محبوب ایک دوسرے کی محبت میں سرشار تھے۔ اس پہ مستزاد نو جوان کی مدھر گائیکی نے ہمارے رومانی جذبوں کو دو آتشہ کر دیا۔ شام کب بچھڑی، کب رات ہوئی، کس کو خبر تھی۔ مجھے یاد ہے وہ نوجوان اس روز بہت مسرور تھا۔ مجھے سر تال کا فہم نا سہی، لیکن میں نے اندازہ لگا لیا تھا، یہ نوجوان ایک نہ ایک دن کوئی نام ور ہو گا۔ سنانے والا فکر مند ہوا، سننے والوں کا جی نہ بھرا تھا۔

نو جوان نے کہا، مجھے وا پس مری جانا ہے، میرے پاس سواری نہیں، تو میں جاوں گا کیسے؟ میرے شوہر نے پیش کش کی کہ وہ اسے مری لے جائیں گے۔ میں نے جھجکتے ہوئے پانسو کا ایک نوٹ، بطور نذرانہ اس نوجوان کے ہارمونیم تلے رکھا۔ نو جوان نے ہاتھ کو پیشانی تک لے جا کے مجرا پیش کیا، اور نوٹ سنبھال لیا۔

کتنے پَل ہیں، جو جیون کے پنوں میں محفوظ ہیں۔ اتنے کاغذ جلائے، لیکن ایک یہ خط نہ جلایا گیا؛ ایک خط کہ جس میں وہ سانجھ، وہ رات لپٹی پڑی ہے۔ یہ خط نہیں، جیون کی ڈور سے بندھا بیش قیمت پَل ہے۔سوچتی ہوں، اس خط کو بھی جلا دوں، پر ہمت نہیں بندھتی۔

لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہوں گے
تو نے جب آخری خط میرا جلایا ہو گا
تو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے
دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہو گا
تیری آنکھوں کے دریا کا
اُترنا بھی ضروری تھا
بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے
مگر پھر آرزووں کابکھرنا بھی ضروری تھا
وہی ہیں صورتیں اپنی
وہی میں ہوں، وہی تم ہو
مگر کھویا ہوا ہوں، میں
مگر تم بھی کہیں گم ہو
محبت میں دغا کی تھی
سو کافر تھے، سو کافر ہیں
ملی ہیں منزلیں پھر بھی
مسافر تھے، مسافر ہیں
تیرے دِل کے نکالے، ہم
کہاں بھٹکے، کہاں پہنچے
مگر بھٹکے تو یاد آیا
بھٹکنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی

آج اس نو جوان کو دُنیا راحت فتح علی خان کے نام سے جانتی ہے۔ راحت فتح علی خان کو شاید وہ شام، وہ رات یاد نہ ہو؛ نہ میں، کہ جس نے منیجر کو کَہ کے اسے وہاں گانے کا موقع دیا۔ انھیں شاید وہ میاں بیوی بھی یاد نہ ہوں، جو انھیں اپنی کار میں بھوربن سے مری تک پہنچانے آئے تھے؛ لیکن مجھے وہ دن کیوں بھولے گا! میرے شوہر کا لکھا وہ ایک خط، جس نے یہ روشن شب یاد دلا دی؛ محبوب کی طرف سے پہلا خط جو آخری ثابت ہوا، یہ خط جو وچھوڑے کا سندیسہ لایا تھا، یہ خط آج تک مجھ سے جلایا نہ گیا۔ کاغذ کا دہکتا یہ ٹکڑا، جب جب میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے، مجھے بھوربن کی وہ شام، وہ رات یاد آتی ہے۔

بچھڑنا بھی ضروری تھا
تیری آنکھوں کے دریا کا
اُترنا بھی ضروری تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments