ایم کیو ایم کی لاش پر سو درّے؟


ایک زمانے میں ایڈولف ہٹلر یورپ میں ایک خوف و دہشت کی علامت تھا۔ سارا ہی یورپ (سوائے برطانیہ عظمیٰ) اُس کے یا اُس کے اتحادی اٹلی کے براہ راست یا بلا واسطہ زیر اقتدار تھا۔ مگر پھر ہٹلر پر برُا وقت آیا اور اس نے سوویت یونین سے بھی بلاوجہ محاذ آرائی کی اور اس پر بھی چڑھ دوڑا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ 1946 ء میں نہ ہٹلر تھا نہ ہی اس کی بنائی ہوئی ’تھرڈ رائخ‘ مگر چنُ چن ُکر تباہ حال ملبہ بنے یورپ سے ہٹلر کے عہد کے اُس کے ساتھیوں کو لایا جاتا اور جرمنی کے شہر ’نیورمبرگ‘ میں اُن پر انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے چلتے۔ شاید قاری کو یہ جان کر حیرت ہو کہ آج کے دن تک بعض افراد نازی جرمنی کے جرائم کے مقدمے بھگت رہے ہیں۔ اُن میں سے بعض ملزمان کی تحویل جرمنی نے لاطینی امریکا کے ممالک سے حاصل کی ہے۔ اُن میں سے ایک فردکی عمر 90 سال سے زائد ہے۔

کوئی سوال پوچھ سکتا ہے کہ اگر اُن افراد نے ہٹلر کے عہد میں واقعی انسانوں پر مظالم کیے تھے تو ہم کو اِس پر اعتراض کیوں کہ یہ افراد مقدمے بھگت رہے ہیں یا ایسے افراد نے مقدمے بھگتے؟ ہمیں کیا تکلیف ہے کہ ہٹلر کے کیے مظالم کا بدلہ اُس کے ساتھیوں نے پایا؟ ہمیں اِس پر حقیقتاً کوئی اعتراض نہیں۔ ہمارا اعتراض تو بس اُس لمحے شروع ہوتا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ سرد جنگ کے دوران امریکا اور روس کے اشاروں پر ہونے والی جنگوں اور مظالم میں پیش پیش رہنے والے افراد آج تک دندناتے پھرتے ہیں مگر اُن سے سوال کرنے والا کوئی نہیں۔

ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ویت نام میں لاکھوں ویت نامیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے امریکی فوجی کبھی کسی عالمی عدالت کے آگے جوابدہ نہیں ہوئے؟ افغانستان میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے روسی فوجی کبھی کسی عدالت کے کٹہرے میں نہیں آئے۔ کبھی افغانستان میں باراتوں پر ڈیزی کٹر بم گرانے والے امریکی کسی عدالت میں نہیں آئے اور یہ فہرست طویل ہے۔

عالمی انصاف کا پیمانہ دیکھ کر لگتا یوں ہے کہ سارا ظلم تو اِس عالم کی تاریخ میں ایڈولف ہٹلر نے ہی کیا تھا۔ اُس کے بعد تو دنیا سے ظلم ایسا مٹا کہ دنیا جنت بن گئی۔ مگر ظاہر ہے کہ اِس جنت میں اُس ظالم کے ہر ساتھی کو سزا تو ملنی ہی چاہیے تا کہ اچھی مثال قائم ہو سکے۔

اصل میں بات صرف اتنی ہے کہ دنیا کا انصاف صرف کمزور کے لئے ہے۔ ہٹلر ظالم تھا، جابر تھا، سفّاک تھا مگر جب وہ مٹ گیا اور اُس کا دیا آہنی نظام ڈھے گیا تو اُس کے ادنیٰ کارندے اور ہرکارے ساری دنیا کیے لئے آسان ترین شکار بن گئے۔ اب اُن پر جوتے لگا کر ہر کوئی حق کا سب سے بڑا علمبردار بن جاتا۔ مگر ماضی کے باطل کو جوتے مار دینے سے حال کے باطل سے ٹکرانے کا فرض تو پورا ہوتا نہیں۔ ماضی کے حقیقی یا مبینہ شیطانوں کو گالی بک کر، ان کے پتلے جلا کر ’دسہرا‘ منانا اور حال کے حقیقی شیطانوں سے معانقہ کرنا منافقت کی وہ اگلی منزل ہے جو دور جدید کا خاصہ ہے۔

ہمارے ملک کے تناظر میں یہی کچھ الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بڑے زوروں سے جاری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اپنی قوت کے دور میں کیا تھی، سب جانتے ہیں۔ الطاف حسین کس طرح شہری سندھ کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا کرتے تھے، یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مگر وہ متحدہ تو اب ماضی کا حصہ بن چکی۔ اس کا تعلق لندن کی قیادت سے ٹوٹ چکا۔ اُس کا مسلح بازو اب یا تو جیل میں ہے یا ملک سے باہر یا منوں مٹی تلے دب چکا۔ اب جو متحدہ کی کچھ باقیات شہر میں موجود ہے وہ تو دراصل ہتھیار ڈالی ہوئی سپاہ ہے۔ متحدہ غیر مسلح ہو چکی، بڑی حد تک اب ایک عام سی سیاسی جماعت بن چکی۔

مگر اِس سارے تناظر کے باوجود بھی متحدہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کا ’نیورمبرگ‘ جاری ہے۔ متحدہ ایک بہت بڑی قوت ہو گی مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب 12 مئی کا سانحہ پیش آیا تب پولیس بھنگ پی رہی تھی؟ اِس شہر میں موجود سارے رینجرز کے ونگ تب خلائی سفر پر گئے ہوئے تھے؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ متحدہ تو تب بھی طاقتوروں کا کھلونا ہی تھی۔ آج وہی طاقتور اِس کھلونے کو توڑ کر اِسے اپنے پیروں تلے کچل رہے ہیں ورنہ سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ ایف آئی اے کوئی ایسا ادارہ تو نہیں جو کل وجود میں آیا ہو تو پھر اُسے لندن ہوئی منی لانڈرنگ اب کیوں یاد آ رہی ہے؟ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ عمران فاروق کا قتل تو لندن میں ہوا تھا تو پھر مقدمہ پاکستان میں کیسے بنا اور قاتل کب اور کیسے پاکستان میں داخل ہوئے؟

سوچنے کی باتیں بہت ساری ہیں اور جاننے کی بات یہ ہے کہ متحدہ نے اگر جرائم کیے ہیں تو اُسے سزا ملنی چاہیے مگر پھر سوال یہ ہی اٹھتا ہے کہ بالکل ویسی ہی سزا ان ہاتھوں کو کیوں نہ دی جائے جو لیاقت بنگش اور عزیر جان بلوچ کو چلاتے تھے، جو ارشد پپو کو چلاتے تھے۔ کیا لوگ بھول گئے کہ 2011 ء کے رمضان میں سڑک چلتے افراد کو اغواء کر کے لیاری لے جایا جاتا تھا اور ان کو ذبح کر کے ان کی ذبیح کی وڈیوز یوٹیوب پر ڈال دی جاتی تھیں؟ لوگوں کو پکڑ کر لانے والوں کو دس ہزار روپے ملتے تھے، کاٹنے والوں کو دس ہزار۔ کیا دنیا بھول گئی کہ جب چوہدری اسلم لیاری میں ایک نام نہاد آپریشن فرما رہے تھے، تب عزیر جان بلوچ صحافیوں کو اپنے گھر مدعو کر کے سجی کھلا رہا تھا۔

؎ پھر سوال یہ بھی تو ہے کہ اگر واقعی اب اداروں کو اپنا پرانا کھلونا یعنی ایم کیو ایم توڑ ہی ڈالنا ہے تو صحیح ’نیورمبرگ ٹرائل‘ تو جب ہی ہو سکتا ہے جب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے تمام ہی حمایتیوں اور ساتھیوں کی جانچ پڑتال ہو۔ تو کیا ادارے بھول گئے کہ حسن نثار صاحب الطاف حسین کے قصیدے پڑھا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ”اصل لیڈر ٹیچر ہوتا ہے اور الطاف حسین سے بڑا لیڈر کوئی نہیں۔ “ پھر حامد میر ہیں، رانا مبشر ہیں، مبشر لقمان ہیں، سلیم صافی ہیں، ڈاکٹر دانش ہیں، اور سارا کا سارا جیو ٹی وی ہے اور کتنے نام گنوائے جائیں؟

بات اتنی سی ہے کہ 12 مئی 2007 ء کے روز یہ تمام نابغے زندہ سلامت تھے، اِن کے تب ارشادات کیا تھے؟ اس دن کی برسی یعنی 12 مئی 2008 ء کو ان لوگوں کے بیانات کیا تھے؟ 2009 ء؟ 2010 ء؟ اِن تمام ہی افراد کے ضمیر بھی کتنے بعد میں جاگے؟ ذرا ایک اور بات پر بھی غور فرمائیے گا کہ 22 اگست 2016 ء کو الطاف حسین نے جو کہا تھا وہ زیادہ شدید تھا یا جو محترم نے 2003 ء میں بھارت یاترا میں فرمایا تھا، وہ زیادہ شدید تھا؟ پھر اِس کے بعد یہ بیان کہ ”جناح کے پاکستان سے اتنے اچھے تجربات نہیں ہوئے کہ ملک توڑ کر اپنے لئے الگ حصہ لیتے تو اس کا نام جناح پور رکھتے“؟ تو پھر تب خاموشی کیوں تھی اور بعد میں واویلا کیوں ہوا؟

بات صرف اتنی سی ہے کہ لاش پر درّے برسانا آسان کام ہے اور مطلب نکل جانے کے بعد یہی کیا جاتا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ حال کے باطل سے ٹکرانا، ماضی کے کسی حقیقی یا مبینہ باطل کا پتلا بنا کر اُس میں آگ لگانے سے بہت مشکل کام ہے اور ماضی کو گالی بک دینے سے حال تھوڑا اچھا بھی لگنے لگتا ہے اور نیا کھلونا مل جانے کے بعد منچلے بچوں کو پرانا کھلونا بھاتا بھی کب ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments