تری یاد کا ولی ہوں کہ میں وا صف علی ہو ں


کتنے خوش بخت اور با نصیب ہو تے ہیں وہ لوگ جن کے گھرا نوں میں یا آس پاس ا یسی پڑھی لکھی درویش صفت شخصیت مو جود ہو جوفہم وفراست اور زما نہ شناس ہو صحیح اور غلط کا مفہوم جا نتی ہو ٹھیک مشورہ دے۔ دنیا کی حقیقتیں آپ پر خلوص نیت وسچا ئی کے سا تھ واضع کر دے۔ ایسی شخصیت کے گرد ایک مقنا طیسی ہالا ہو تا ہے جو آپ کو خود بخود اپنی کے جا نب کھنچتا چلا جا تا ہے۔ ہر کو ئی ان کے قریب رہنا چا ہتا ہے۔ ان سے با تیں کر نا چا ہتا ہے۔ ا یسی ہی ایک شخصیت وا صف علی واصف کی تھی۔

انھیں قریبی اور خونی رشتوں کا بہت پاس تھا۔ ان کو فا ئدہ اور آسا نی دینے کی حتی ٰلا امکان کو شش کرتے تھے۔ اپنے کیا غیر بھی ان کے ارد گردرہنا چا ہتے تھے۔ اس درویش کی با تیں سنتے تھے مشوروں پر عمل کر تے تھے۔ ایسے پر خلوص انسانوں کی ہر دور میں سخت ضرورت رہی ہے اور آج کے زمانے میں توکچھ زیادہ ہی کمی محسوس ہو تی ہے۔ اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو ان کی کتا بیں افکار و شا عری ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہمیں چا ہئے کہ انھیں پڑھیں اور دنیا کے مسا ئل و چیلنجز کا سامنا وا صف علی وا صف کے افکار کی رو شنی میں کریں۔

وا صف علی وا صف 15 جنوری1929 کو ضلع خوشاب میں پیدا ہو ئے۔ ابتدا ئی تعلیم خوشاب میں حاصل کی۔ وہ ایک ذہین طالب علم تھے۔ میڑک تک اپنے اسکول میں اول پو زیشن لیتے رہے۔ اسلامیہ کالج اور پھرپنجا ب یورنیورسٹی سے انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ ایک ہونہار طا لب علم کی حیثیت سے ساتھ ہی دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ہاکی بہت اچھی کھیلی۔ یورنیوسٹی سے ایوارڈ آف آنرز سے نو ازا گیا۔

1954 ء میں سول سروس کا امتحان پاس کیا۔ پو لیس ٹریننگ حاصل کی لیکن ان کی طعبیت تعلیم و تدریس کی جانب ما ئل تھی اس لئے استاد کی حیثیت سے کیرئیر کا آغاز کیا۔ ایک مقا می کالج میں بحیثیت استاد پڑھانے لگے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنا کالج کھول لیا۔ جہاں علم کی روشنی ہر خاص وعام کے لئے تھی۔ نادار طالب علموں پر خصوصی تو جہ دیتے۔ مالی مدد بھی فرماتے تھے۔

واصف علی واصف پڑھے لکھے روشن خیال دنیا کو سچ جھوٹ کی کسوٹی پر پرکھنا جا نتے تھے۔ وہ ایک صاف ستھرے نفیس اور گریس فل شخصیت کے سا تھ جدید اور مشرقی لباس پہنتے تھے۔ جس میں صوفیا نہ وقار جھلکتا تھا۔ ان کی شخصیت  عقیدت مندوں کو اپنی جانب متو جہ کر تی تھی۔ انھوں نے درویشی مزاج کے سا تھ زندگی کو بہت بیلنس سے گزاری۔ دین ودنیا ساتھ لے کر چلے۔

ایک استاد کے ساتھ ساتھ وا صف علی واصف ایک کالم نگار، شاعر اورصوفی بھی تھے۔ آپ نے انڈیا بریلی شریف میں نیاز احمد سے بعیت لی اور تصوف کی راہ اپنائی۔ آپ کی تحاریر میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہیں۔ آپ کاصوفیانہ کلام پاکستان کے تمام بڑے گلوکاروں نے بڑی عقیدت سے سنایا۔ صو فیانہ کلام کے ساتھ سا تھ وا صف علی واصف نعت گو شاعر بھی تھے۔ اللہ اورحضورر ﷺ کے سچے عاشق تھے۔ اس لئے نعتوں میں آقا کریم ﷺ کی سچے عشق کی تڑپ محسوس ہو تی ہے۔ بقول وا صف علی وا صف

؎ تری یاد کا ولی ہوں کہ میں وا صف علی ہوں

واصف علی واصف نے لگ بھگ تیس کتابیں لکھی جن میں قطرہ قطرہ قلزم، بات سے بات، دل دریا سمندر، حرف حرف عقیدت، ذکر حبیب، مکالمہ شا مل ہیں۔ آ پ کے چند قیمتی افکار جو آج کے زمانے میں بھی لا گو ہیں اور ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔ جتنا تم اللہ سے راضی ہو اتنا اللہ تم سے راضی ہے، خوش نصیب ہے وہ جو اپنے نصیب پر راضی ہے، جوشخص سجدوں میں روتا ہے اسے تقدیر پر نہیں رونا پڑتا، اگر تمھا ری اولاد تم سے را ضی ہے تو تمھاری دنیا بن گئی اگر والدین را ضی ہیں تو آخرت بن گئی، خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر را ضی ہو، غم چھوٹے انسان کو کھا جا تا ہے بڑے انسان کو بنا جا تاہے، پریشانی خیالات سے پیدا ہو تی ہے اچھے خیالات رکھئے اورپا کستان کے حوالے سے فرما تے تھے کہ پا کستان نو ر ہے اور نور کو کبھی زوال نہیں۔

واصف علی واصف کو پا کستان سے بیحد محبت تھی۔ نو جوانی میں امرتسر میں قا ئداعظم کے ساتھ مسلم لیگ میں شا مل تھے اور پا کستان کے لئے جدوجہدبھی کی۔ آج جس طرح ہما را معاشرہ شدت پسندی نفرت جھوٹ بناوٹ کی دلدل میں گھرا ہوا ہے اگر واصف علی واصف کے دیے ہو ئے افکار زندگی کو پڑھا اور عام کیا جا ئے تو ہما رے سماج میں ذہن وقلب کو بدلا جا سکتاہے۔ کیونکہ آپ کے افکار سوچ بدلنے کا جادو رکھتے تھے۔ واصف علی واصف کی تحریریں اخبارات میں کالم کی شکل میں شا ئع ہو تی تھیں جنھیں پڑھنے والے قارئین کی لمبی فہرست زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

واصف علی واصف کی حیات میں عقیدت مند مسائل کے حل کے لئے آپ کے پاس آتے تھےاور سرخرو ہو کر جا تے تھے۔ آپ مالی طور پر بھی ان کی امداد کیا کرتے اورآپ کی با تیں دکھی دلوں پر مر ہم کا کا م کر تی تھیں۔ نہ صرف عام طبقے سے تعلق رکھنے والے بلکہ کئی معتبر و اعلیٰ شخصیات بھی آپ کی محفلوں میں شامل ہو تیں آپ بناء کسی غرض و مفاد کے سب کے قریب تھے۔

آپ مختصر اقوال میں بڑے کام کی با تیں کہہ جا تے تھے۔ گویا دریا کو کو زے میں بند کرنے کا ہنر جا نتے تھے۔ اسی درویش صفت کا قول ہے کہ سفر پر نکلنے کا کمال ہے کہ آخری منزل تک پہنچنا انھوں نے 18 جنوری 1993 ء کو زندگی کو خیرباد کہا واصف علی واٖصف کے کلام کو انگریزی اور دیگر زبا نوں میں ڈھالا جا رہا ہے ان پر تھیسس لکھے گئے اور پی ایچ ڈی کی جا رہی ہے وہ رو شنی کا مینارہ تھے اور ان کی تحریریں ہمیشہ سیکھنے وا لوں کے لئے مشعل راہ رہیں گی۔ بقول واصف علی واصف کچھ لوگ زندگی میں مردہ ہو تے ہیں اورکچھ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments