شہریت کا متنازع قانون: کیا انڈیا نے نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے؟


ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں انڈین مسلم خواتین شہریت کے متنازع قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں

ریاست مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں انڈین مسلم خواتین شہریت کے متنازع قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں

انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں بی جے پی کی ریاستی شاخ کے صدر دلیپ گھوش نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’جو لوگ متنازع شہریت کے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں اور جو عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں انھیں ’کتوں کی طرح گولی مار دینی چاہیے جس طرح‘ ان کی ’حکومت اتر پردیش، آسام اور کرناٹک میں کر رہی ہے۔‘

ریاست اتر پردیش جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے، وہاں کے ایک وزیر نے گذشتہ دنوں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو لوگ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ یا وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگائیں گے میں انھیں زندہ دفن کر دوں گا۔‘

اسی طرح کے نفرت انگیز بیانات کا ایک سلسلہ ہے۔ خود وزیر اعظم نے مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہروں کے دوران تخریب کاری کون کر رہے ہیں، یہ ان کے لباس سے واضح ہے۔

شہریت کے قانون کے بارے میں جو شبہات ظاہر کیے گئے ہیں حکومت اس کا جواب ابھی تک دلیل سے کم اور طاقت سے زیادہ دے رہی ہے، لیکن شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مزاحمت گھٹنے کے بجائے روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست میں مسلمان دہشت زدہ کیوں؟

’میں انڈین شہریت ثابت کرتے ہوئے مرنا نہیں چاہتی‘

’گولیوں اور ٹوٹنے والی لاٹھیوں کا خرچ بھی مظاہرین ادا کریں‘

جامعہ کی لڑکیوں نے ماتھے کے آنچل کو پرچم بنا لیا!

انڈیا میں ہزاروں ایسے ہندو، سکھ، بودھ اور مسیحی تارکین وطن عشروں سے مقیم ہیں جو پڑوسی ملکوں کے سیاسی حالات، کچھ تفریق اور جبر کے سبب اپنا ملک چھوڑنے کے لیے مجبور ہوئے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح یہاں بھی بیشتر ایک بہتر زندگی کی تلاش میں آئے۔ ان تارکین کی غالب اکثریت غریب اور کمزور طبقے کی ہے۔ شہریت کے ترمیمی قانون کا مقصد ایسے تمام غیر مسلم تارکین کو شہریت دینا ہے۔

ملک میں برسوں سے مقیم تارکینِ وطن کو شہریت دینا یقیناً ایک انسانی ہمدردی کا قدم ہے، اس پہلو پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ شہریت قانون کی مخالفت اس لیے ہو رہی ہے کہ تارکین کو شہریت دینے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر کیا گیا ہے اور مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انسانی ہمدردی کی آڑ میں اس قانون کا مقصد سیاسی ہے۔

شہریت کے قانون کا فوری تعلق آسام کے حالیہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) سے ہے۔ آسام میں 19 لاکھ باشندوں کو شہریت کی فہرست سے باہر رکھا گیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس میں اکثریت بنگالی ہندوؤں کی ہے مگر کئی لاکھ بنگالی مسلمان بھی شہریت سے باہر رکھے گئے ہیں۔

شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ شہریت کے نئے قانون کے تحت حکومت آسام میں شہریت کی فہرست سے باہر ہونے والے ہندوؤں کو تو شہریت دے دے گی لیکن لاکھوں مسلمانوں کو ’گھس بیٹھیے‘ قرار دے کر شہریت اور قومیت سے محروم کر دے گی۔

انڈیا کے مسلمان پورے ملک میں اس قانون کی اس لیے بھی مخالفت کر رہے ہیں کہ اگر مستقبل میں پورے ملک میں این آر سی نافذ کیا گیا تو اس قانون کے تحت شہریت سے باہر ہونے والے ہندوؤں کو تو دوبارہ شہریت مل جائے گی لیکن متاثرہ مسلمانوں کی شہریت ختم ہو جائے گی۔

حکومت کی دلیل ہے کہ شہریت کا قانون شہریت دینے کے لیے ہے کسی کی شہریت واپس لینے کے لیے نہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر صرف شہریت دینے کا سوال تھا تو یہ قدم اپوزیشن کی حمایت سے موجودہ قوانین کے تحت ہی آسانی سے اٹھایا جا سکتا تھا، لیکن اس کا مقصد سیاسی ہے۔

حکومت نے پارلیمنٹ میں جب شہریت کے بل کو پیش کیا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایک کمزور اپوزیشن اس بل کی اتنی شدت سے مخالفت کرے گی اور اسے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے سیکیولر آئین پر حملے کا ایک مسئلہ بنا دے گی۔

حکومت کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ کسی لیڈر یا تنظیم کے بغیر مسلمان پورے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں اس کی مخالفت میں سڑکوں پر آ جائیں گے۔

حکومت سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ یہ اندازہ نہ کر سکی کہ مسلمانوں سے زیادہ ہندو اس قانون کے خلاف احتجاج میں باہر نکل پڑیں گے۔

انڈیا کے طلبہ میں ایک عرصے سے ملک کے حالات خاص طور پر ملازمت کے کم ہوتے ہوئے مواقع پر ایک عرصے سے بے چینی پنپ رہی تھی۔ جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے احتجاجی طلبہ پر پولیس کی بے رحمانہ کارروائی نے بے چین طلبہ میں جلتی پر آگ کا کام کیا۔

الہٰ آباد کے منصور علی پارک میں مظاہرین کئی دن سے لگاتار احتجاج کر رہے ہیں

الہٰ آباد کے منصور علی پارک میں مظاہرین کئی دن سے لگاتار احتجاج کر رہے ہیں

بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں اتر پردیش، آسام اور کرناٹک میں 25 سے زیادہ مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کیے جانے اور ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کرنے اور انھیں اذیتیں دینے کے باوجود حکومت شہریت قانون کی مخالفت کو دبا نہ سکی۔

یہ مخالفت اب ایک ملک گیر تحریک بن چکی ہے اور اس تحریک میں مسلم خواتین کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں خواتین مظاہروں، احتجاج اور دھرنوں میں شریک ہو رہی ہیں۔ دلی کا شاہین باغ خواتین کی مزاحت کی علامت بن گیا ہے۔حکومت کے لیے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔

ملک گیر مظاہروں سے حکومت نے فی الحال دفاعی رخ اختیار کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو ملک گیر این آر سی نافذ کروانے کے اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا ہے۔

فروری کے دوسرے ہفتے میں دلی کے اسمبلی انتخابات میں اگر ‏عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کو دوبارہ شکست دے دی تو مودی اور امیت شاہ کے احساس شکست میں اور بھی شدت آئے گی، لیکن وہ پیچھے ہٹنے والے رہنما نہیں ہیں۔ وہ موقع کی تلاش میں ہیں اور اپوزیشن یا مظاہرین کی کوئی بڑی غلطی یا دہشت گردوں کی جانب سے کوئی بڑی واردات صورتحال کو یکلخت بدل سکتی ہے۔

اس مرحلے پر انڈیا ایک تغیر سے گزر رہا ہے۔ ملک کے مسلمان تقسیم ہند کے بعد پہلی بار اجتماعی طور پر اپنے ملک میں اپنے حق کے دفاع کے لیے کھڑے ہوئے ہیں جس میں انھیں طلبہ اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے عام شہریوں سے زبردست حمایت مل رہی ہے۔

انھیں پہلی بار اپنی طاقت کا احساس ہو رہا ہے۔ یہ تحریک کہاں تک جائے گی اس مرحلے پر کچھ اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن آنے والے دنوں میں مظاہرین پر مزید تشدد اور جبر کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

شہریت کے نئے قانون کے ذریعے حکومت نے ملک کے سیکولر آئین میں براہ راست تبدیلی نہ کر کے بالواسطہ طور پر چوٹ لگائی ہے۔

نئی دہلی میں جامعہ ملیہ کے باہر طلبا شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں

نئی دہلی میں جامعہ ملیہ کے باہر طلبا شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی سیاسی منزل انڈیا کو سبھی کو مساوی حق دینے والی ایک جمہوریت سے ہندو اکثریتی جمہوریت میں تبدیل کرنا ہے جس میں مسلمانوں اور مسیحی شہریوں کی حیثیت برابری کی نہیں بلکہ ثانوی ہوگی۔ اس کے لیے آئین میں ابھی کئی ترامیم کی جائیں گی اور یکساں سول قوانین بھی حکومت کے ایجنڈے میں ہے۔

لیکن مودی اور امیت شاہ کا یہ سیاسی سفر پُرخطر ہے۔ ملک کی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے اور بین الاقوامی حلقوں میں مودی کی قیادت کے بارے میں شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ملک میں وہ بڑی تیزی سے ریاستوں کا اقتدار کھوتے جا رہے ہیں۔

شہریت قانون کے خلاف اس تحریک کی کامیابی یا ناکامی ملک کی مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp