سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ پر تنازع: ’فلم کا موضوع عدم برداشت ہے کوئی فرقہ نہیں‘


معروف پاکستانی فلمساز اور اداکار سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ سینسر بورڈ کی جانب سے ان کی آنے والی فلم ’زندگی تماشا‘ کو نمائش کی منظوری دیے جانے کے باوجود ملک میں اس کی ریلیز روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

’زندگی تماشا‘ 24 جنوری کو پاکستان بھر میں نمائش کے لیے پیش کی جانی ہے اور اس کے حوالے سے ایک مذہبی جماعت کی جانب سے فلم کے خلاف مظاہروں کی کال بھی دی گئی ہے۔

سرمد کھوسٹ نے اس بارے میں سوشل میڈیا پر پاکستانی حکومت اور عوام کے نام ایک کھلے خط میں کہا ہے کہ یہ فلم دنیا کی دیگر فلموں کی طرح اپنے ارد گرد کے ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’قانون کی پاسداری کرنے والے ایک شہری اور اس مکمل یقین کے ساتھ کہ فلم میں کچھ بھی توہین آمیز یا بدنیتی پر مبنی نہیں ہے میں نے فلم کو دوبارہ جائزے کے لیے سینسر بورڈ کو پیش کیا اور ایک مرتبہ پھر صرف شکایت گزاروں کو خوش کرنے کے لیے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ فلم دوبارہ نمائش کے لیے منظور کر دی گئی۔‘

سرمد کھوسٹ کہتے ہیں کہ اب فلم کی ریلیز سے ایک ہفتہ قبل انھیں اور ان کی ٹیم کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور فلم کی نمائش روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس فلم کے بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پہلے یہ فلم ملک کے تینوں سینسر بورڈز سے پاس کروائی اور بعد میں صرف ڈھائی منٹ کے ٹریلر کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے مفروضوں کی بنیاد پر اس کے خلاف شکایت درج کروائی۔

https://www.instagram.com/p/B7YnCYZh-YU/

ان کا کہنا تھا کہ ان کی فلم کسی فرقے یا مسلک کے بارے میں نہیں ہے اور اس فلم کا مرکزی موضوع صرف عدم برداشت ہے۔

’جب آپ کسی حقیقی صنف میں کام کرتے ہیں تو اس کردار کے ہر پہلو پر بات ہوتی ہے۔ (اس فلم کا مرکزی کردار) ایک پراپرٹی ایجنٹ ہے، وہ ایک باپ ہے، وہ ایک لاہور پنجابی ہے، وہ ایک خیال رکھنے والا شوہر ہے اور وہ شوقیہ طور پر، پیشہ وارانہ طور پر نہیں، ایک نعت خواں بھی ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مکمل کردار کی، جیتے جاگتے زندہ کردار کی کہانی ہے۔ پھر اس کی زندگی میں ایسا بہت معمولی سا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان تمام پہلوؤں پر تنازعات اٹھتے ہیں، اس کے کام پر تنازع ہوتا ہے، جہاں وہ شوقیہ طور پر کام کرتا ہے اس کے حوالے سے بھی تنازع ہوتا ہے، مگر زیادہ اور مرکزی طور پر یہ اس کے ذاتی زیاں کی کہانی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ فلم کسی بیرونی کومنٹری کے بارے میں نہیں ہے، یہ اندرونی احساسِ زیاں کے بارے میں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے فلم کے مرکزی کردار کے ساتھ ’جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ذاتی عدم برداشت کا بھی شکار ہوتا ہے، وہ ہمسایوں کی عدم برداشت کا بھی شکار ہوتا ہے، اور سائبر سپیس میں بھی عدم برداشت کا شکار ہوتا ہے۔‘

سرمد کھوسٹ نے یہ بھی کہا کہ مذہب ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہے اور ’کیسے ممکن ہے کہ جب آپ ایک کہانی مکمل طور پر سنائیں، تو اس کا ذکر نہ آئے، ہم چیزوں کی طرف اشارہ ضرور کر رہے ہیں مگر بالکل صاف ہے کہ وہ فلم کا مرکزی خیال نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی مسلک کے بارے میں نہیں ہے، میں اس فلم کی ایک سطری سمری دیتا ہوں تو یہ کہانی ایک قابلِ قبول مسلمان کے بارے میں ہے۔ نہ اس فرد کو یہ کہانی میں اس سے ملنے والے دیگر افراد کو کسی بھی مسلک یا فرقے یا سیاسی جھکاؤ سے جوڑا گیا ہے، یہ تو بس زندگی کا ایک حصہ ہے۔‘

سرمد کا کہنا تھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ صرف ایک جماعت کو ایسا کیوں لگ رہا ہے؟

انھوں نے بتایا کہ اس فلم میں عید میلاد النبی کی ایک محفل کو دکھایا گیا تھا ’جس کی عکس بندی کے دوران میں نے ایک دستاویزی فلم کے انداز جو کچھ بھی ہو رہا تھا، اس کو ایک فیسٹیول اور جشن کے طور پر عکس بند کیا۔ وہاں جو جو مناظر اور جو جو آوازیں تھیں، وہ میں نے شوٹ کیں تو اس کے آخر میں ایک نعرہ لگ رہا تھا لبیک یا رسول اللہ وہ بھی میں نے ریکارڈ کیا اور بعد میں نے ٹریلر میں بھی استعمال بھی کر لیا۔۔۔اب کسی طرح یہ تعلق بن گیا کہ میں ان کی بات کر رہا ہوں۔

’مجھے تکلیف اس بات کی ہے کہ ایک ایسا جملہ یا کلمہ جو لوگ اپنی عقیدت کے اظہار میں کہتے ہیں اس کے جملہ حقوق آپ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔’

سرمد کھوسٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی فلم کی نمائش کو یقینی بنانے کے لیے قانونی راستہ استعمال کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp