ارفع کریم کا دنیا سے جانا


کل مجھ کو وہم ہوا کہ ارفع کریم کی اچانک موت کے پیچھے بل گیٹس اینڈ کمپنی کا ہاتھ تھا۔ ایک دوست، جس کا نام مرزا جمروز خاں حکیم ہے سے اس وہم کا ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ بھئی تم نہیں جانتے اور شاید دنیا بھی نہیں جانتی کہ تمہارے اس وہم میں کتنی بڑی صداقت ہو سکتی ہے۔ میں نے حیرانگی سے اپنا منہ مرزا کے منہ کی طرف کیا تو مرزا نے کہا کہ کیا تم اس معاملے پہ ”حقیقت ٹی وی کے کیے گئے انکشافات سے بے خبر ہو؟ حد ہے۔ پھر مرزا نے ان انکشافات کی تفصیل یوں بیاں کی۔

اول مرزا نے پوچھا، تم جانتے ہو بل گیٹس کون ہے؟

کیوں نہیں، ایک ایسا آدمی جو دنیا کا سب سے زیادہ امیر آدمی ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں کی اس سے محبت کی وجہ اس کی امیری نہیں ہے بلکہ اس کی لوگوں کے لیے پیش کردہ خدمات ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عظیم آدمی اپنے آپ سے زیادہ فلاحی کاموں پر اپنی دولت خرچ کرتاہے۔

میں ابھی مزید بل گیٹس پر بات کرنا چاہ رہا تھا کہ مرزا نے ٹوک کر کہا، تم مجھے بتانا پسند فرماؤ گے کہ تمہارا اس لمبی چوڑی تقریر کا کیا مقصد ہے؟ مجھے تمہاری تقریر سننے کے بعد وہ محاورہ یاد آیا کہ ”نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی“

میں نے فوراً کہا، مرزا تم نے ہمیشہ یہ روایت برقرار رکھی ہے کہ جب بھی کسی گفتگو کے دوران محاورہ پیش کرتے ہو تو وہ ہمیشہ اس گفتگو کے بالمقابل و بالمخالف گفتگو کا محاورہ ہوا کرتا ہے۔ کیا مجال کہ تمہارے پیش کردہ سب محاوروں میں سے کسی ایک کا بھی ہماری گفتگو سے کبھی بھی کوئی بھی لینا دینا رہا ہو۔ خیر! تم یہ بتاؤ کہ یہ بل گیٹس کے ساتھ بلی اور چوہے کا کیا رشتہ ہے؟

مرزا نے کہا، ایک رشین انٹیلی جینس رپورٹ کے مطابق بل گیٹس کی پولیو ویکسین سے ہزاروں بچوں کی موت ہوئی اور لاکھوں بچوں کے دماغ مفلوج ہوئے۔ ایسا ہونا محض اتفاقاً نہ تھا بلکہ یہ پہلے سے ترتیب دیا گیا ایک بڑا مقصد تھا۔

میں نے استغفراللہ کا ورد کرتے ہوئے مرزا سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس وہ رشین انٹیلی جینس رپورٹ ہے؟ تو مرزا نے بھرپور جواب دیا کہ حضرت میں آپ کے سامنے ”حقیقت ٹی وی“ کے انکشافات کا جائزہ پیش کر رہا ہوں۔ اور ہاں آگے سنو، قریباً دس برس پہلے یورپ کی ایک طالبہ نے کم عمری میں ہی ارفع کریم کی طرح آئی ٹی شعبے میں جب اپنا نام پیدا کیا تو اس کو بھی بل گیٹس اینڈ کمپنی نے سیدھا اللہ میاں کے پاس بھیج دیا تھا۔

اتنا سب سننے کے بعد میں نے پوچھا، مرزا تم نے اس واقعہ کے ساتھ کسی انٹیلی جینس رپورٹ کا ذکر نہ کیا؟ مرزا نے منہ کا رنگ اڑاتے ہوئے کہا۔ این انکشافِ حقیقت ٹی وی است، انکشافِ مرزا نیست۔

دیکھو مرزا میں تمہاری عزت کرتا ہوں اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تم کچھ بھی بے بنیاد کہے جاؤ اور میں سنے جاؤں، ہاں اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو تم وہ سامنے رکھے بات کرو تو تب کچھ بات بنے۔

پھر مرزا نے کہا؟ تم کیا جانو روس نے کیوں مائیکروسوفٹ کمپنی کی سروس اپنے ملک میں معطل کی؟ تم کیا جانو مائیکروسوفٹ کمپنی کس کے ساتھ مل کر کس کے ایجنڈے پر کام کرتی ہے؟ ان سب، اور اس طرح کی اور بہت سی خطرناک باتوں کے ثبوت موجود ہیں۔

جب میں نے کہا، کہاں ہیں ثبوت؟ تو مرزا نے کہا اگر کچھ اور نہیں کر سکتے تو صرف گوگل ہی کر لو تمہیں رشین انٹیلی جینس کی وہ رپورٹ اور مزید اس موضوع پر بہت مواد یعنی ثبوت مل جائیں گے۔

میں نے مرزا سے عرض کی کہ تم اپنا مدعا پیش کر رہے ہو سو یہ تمہارا کام ہے کہ اس وقت تم ثبوت میرے سامنے رکھے اپنا مدعا پیش کرو۔ یہ سننا تھا کہ مرزا نے میرے ہزار بار نہ چاہنے کے باوجود، یوں کہوں تو بجا کہ جبراً مجھے ”حقیقت ٹی وی“ کے انکشافات براہِ راست سنوا ئے۔

بعد از سنوائی ءِ انکشافاتِ حقیقت ٹی وی میرے ذہن نے یہی نقطہ سوجھا، جس پر مجھے یقین ہی نہیں بلکہ میرا ایماں بھی قائم و دائم ہوا کہ کل جو مجھے وہم ہوا کہ ارفع کریم کی اچانک موت کے پیچھے بل گیٹس اینڈ کمپنی کا ہاتھ تھا، اس وہم کو چند برس پہلے! مرزا تم نے غور کیا؟ چند برس پہلے ہی حقیقت ٹی وی نے مختلف دلیلوں کے ساتھ سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی تھی اور تقریباً سچ ثابت کرتے کرتے رہ گئے تھے۔

مرزا، دنیا کی تاریخ میں بارہا یہ مثالیں موجود ہیں کہ ایک کامیاب آدمی کبھی بھی نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے قد کے برابر پہنچے، خاص کر جب اسے محسوس ہو کہ اُس کی کامیابی کے لیے خطرہ کوئی دوسرا آدمی بننے جا رہا ہے جو اس کے قد کے برابر آنا چاہ رہا ہے تو اسے مختلف طریقوں سے اس راستے سے ہی ہٹا دیا گیا۔ دنیا نے یہ بھی خوب روایت برقرار رکھی کہ اگر دو لوگوں کا کسی بھی حوالے سے مقابلہ ہو تو اُن دونوں کی ساری محنتیں، مشقتیں و کوششیں اپنے آپ کو مزید مضبوط بنانے کے بجائے دوسرے کو کمزور بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔

ارفع کریم اس ملک کے لیے ہی بڑا اثاثہ نہ تھی بلکہ دنیا کے لیے بھی بڑا اثاثہ بن سکتی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو یہ خیال رہا ہو کہ ارفع کریم مستقبل میں اس کے قد کے برابر پہنچتی یا اس کے لیے کوئی خطرہ بنتی تو اُس نے ارفع کریم کو اِس راستے سے ہی ہمیشہ کے لیے ہٹایا ہو۔

مرزا اچانک اپنے چہرے کا رنگ واپس لاتے ہوئے بولا۔ سبحان اللہ، آخر تم بھی ایماں لے ہی آئے۔ یہی نقطہ تو ہے جس کو میں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ عرض کیا۔ مرزا خیال رہے کہ یہ صرف خیالات ہیں ہمارے ذہن کے، ان خیالات میں کتنی صداقت ہے وہ خدا جانتا ہے یا پھر بل گیٹس اینڈ کمپنی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments