پاکستانی کرکٹر منیبہ علی: غلطیوں سے سبق سیکھ کر عمدہ کارکردگی کا عزم


پاکستان ک انٹرنیشنل کرکٹر منیبہ علی بہت زیادہ پراعتماد ہیں کہ سہ فریقی ویمنز ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شاندار کارکردگی انھیں دوبارہ پاکستانی ٹیم میں لے آئے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام کراچی میں ہونے والی اس سہ فریقی سیریز میں منیبہ علی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سنچری اور تین نصف سنچریاں سکور کی ہیں۔

آئندہ ماہ آسٹریلیا میں ہونے والے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی ویمنز ٹیم کا اعلان آئندہ چند روز میں ہونے والا ہے اور منیبہ علی نے اپنی شاندار کارکردگی کے ذریعے ٹیم میں شمولیت کا کیس بہت مضبوط کر لیا ہے۔

بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والی 22 سالہ منیبہ علی کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ اب تک سات ون ڈے انٹرنیشنل اور تیرہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیل چکی ہیں لیکن ان میچوں میں وہ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔

منیبہ علی اس سے قبل 2016 اور 2018 میں منعقدہ آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

منیبہ علی بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ بچپن میں تمام کھیلوں میں دلچسپی لیا کرتی تھیں لیکن کرکٹ سے زیادہ لگاؤ تھا۔

مزید پڑھیے

مرد و خواتین کرکٹرز مساوی کیوں نہیں؟

دہائی کی بہترین ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان کا اعزاز ثنا میر کے نام

’خواتین کرکٹ کا مستقبل نوجوان کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں ہے‘

’کرکٹ ہی میرا پہلا پیار ہے‘

تصویر

منیبہ علی کہتی ہیں کہ ‘ٹیم سے باہر ہونے کے بعد جب آپ ٹیم میں دوبارہ آنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے‘

انھوں نے اپنے شوق کا اظہار والدہ سے کیا جنھوں نے منیبہ علی کو اکیڈمی میں داخل کرا دیا جس کے بعد وہ انڈر 19 کھیلیں اور پھر پاکستان اے اور پاکستان کی سینیئر ٹیم میں آئیں۔

منیبہ علی کا کہنا ہے ان کے کریئر میں ان کی والدہ کا نمایاں کردار ہے جنھوں نے ابتدا ہی سے ان کی حوصلہ افزائی کی جس کے بعد انھیں کسی دوسرے کی پروا نہیں ہوتی تھی کیونکہ ’اگر آپ کے والدین آپ پر اعتماد کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کریں تو پھر زیادہ اہمیت اسی بات کی ہوتی ہے‘۔

منیبہ علی کا کہنا ہے کہ ان کے کریئر کا سفر آسان نہیں رہا ہے اور انھیں اتار چڑھاؤ دیکھنے پڑے ہیں۔

منیبہ جب پاکستانی ٹیم میں آئیں تو اٹھارہ برس کی تھیں اور جب وہ ٹیم سے ڈراپ ہوئیں تو انھوں نے دلبرادشتہ ہونے کے بجائے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا۔

منیبہ علی کہتی ہیں کہ ’ناکامیوں پر قابو پانا اور حالات سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن جتنا زیادہ آپ کھیلتے جاتے ہیں آپ کو تجربہ اور سمجھ بوجھ آتی جاتی ہے۔‘

اس سلسلے میں ان کے بچپن کے کوچ مشرف نے ان کی بہت زیادہ مدد کی۔ وہ آج بھی انہی سے رہنمائی لیتی ہیں جو انھیں صرف یہی کہتے ہیں کہ ’کبھی بھی ہمت نہیں ہارنا اور ہمیشہ مثبت رہنا۔‘

ان کے علاوہ انڈر 19 ٹیم کے کوچ عامر بھی ان کے کریئر میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

منیبہ علی کہتی ہیں کہ ’ٹیم سے باہر ہونے کے بعد جب آپ ٹیم میں دوبارہ آنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔

’یہ محنت اس محنت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو آپ کو پہلی بار ٹیم میں آنے کے لیے کرنی ہوتی ہے۔‘

منیبہ علی کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی آرہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس ٹیم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس کی پاور ہٹنگ بھی اچھی ہوئی ہے۔

’اب تقریباً تمام ہی کھلاڑی چھکے مارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘

منیبہ علی کے پسندیدہ کرکٹر کمار سنگاکارا ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک سٹائلش بیٹسمین رہے ہیں جن کی بیٹنگ سب کے دلوں کو بھاتی ہے۔ ان کے علاوہ وہ کوئنٹن ڈی کاک کی بیٹنگ کو بھی پسند کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp