چینی مچھیروں ملنے والے ’زیرآب جاسوس‘ کس کے ہیں؟


تصویر

‘چینی مچھیروں کو غیرملکی جاسوسی کے آلے پکڑنے پر انعامات سے نوازا گیا’: پہلی نظر میں تو یہ شہ سرخی انتہائی چٹپٹی اور غیر معمولی لگتی ہے۔

تاہم چین کے سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کردہ اس شہ سرخی کے پیچھے ایک انتہائی دلچسپ کہانی چھپی ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ انعامات دو یا تین مچھیروں کو نہیں بلکہ 11 مچھیروں کو دیے گئے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔

مزید پڑھیے

چین قطب شمالی میں بحری گزرگاہیں بنائے گا

’امریکہ جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے میں فریق نہیں‘

امریکہ کی چین سے بحری ڈرون چھوڑنے کی درخواست

دوسری بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جیانگسو کے مچھیروں نے ’جاسوس ڈرونز‘ پکڑے تھے۔ سنہ 2018 میں 18 مچھیروں کو ایسے نو آلے پکڑنے پر انعامات دیے گئے تھے۔

جبکہ تیسری بات یہ ہے کہ ان مچھیروں کو پانچ لاکھ یوان یعنی 72 ہزار امریکی ڈالرز کی شکل میں ایک بڑی انعامی رقم دی گئی۔ یہ چین میں اوسط آمدنی سے 17 فیصد زیادہ ہے۔

یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں، وہ یہ کہ یہ زیرِ آب جاسوس آتے کہاں سے ہیں؟ کرتے کیا ہیں؟ یہ اتنے قیمتی کیوں ہیں؟ اور چینی مچھیروں کو اتنی بڑی تعداد میں یہ مل کیسے گئے؟

تصویر

مشرقی چین میں جیانگسو صوبے کے ساحل کی لمبائی ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ ہے۔

اس کےسامنے جاپان اور جنوبی کوریا ہیں جبکہ تائیوان اس کے جنوب میں 500 میل کی مصافت پر واقع ہے۔ اس جغرافیے اور امریکی افواج کی بڑی تعداد کی اس خطے میں موجودگی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ مچھیروں کو یہ آلے کیوں ملتے رہتے ہیں۔

چین نے اب تک یہ انکشاف تو نہیں کیا کہ یہ آلے آتے کہاں سے ہیں اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ آلے ‘دوسرے ممالک میں بنتے ہیں۔’

تاہم اس خطے کے امور کے ماہر ایلیگزینڈر نیل کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ ‘امریکی بحریہ، جاپانی کی دفاعی افواج، یا تائیوان سے آئے ہوں کیونکہ اس علاقے میں دشمنی عروج پر ہے۔’

تو امریکی، جاپانی اور تائیوانی کس چیز کی جاسوسی کرنا چاہ رہے ہیں؟ سنہ 2009 میں امریکی بحریہ کی جانب سے زیرِ آب ڈرونز (جو ‘یویوویز’ کے نام سے جانی جاتے ہیں) کے بارے میں تحقیق کی گئی۔

اس تحقیق میں مندرجہ ذیل سات طریقوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے یویوویز کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

  • ‘دشمن کی آبدوزوں’ کی نگرانی
  • غیر ملکی پانیوں میں زیرِ زمین گولوں کی نشاندہی اور انھیں ناکارہ بنانے کا عمل
  • جاسوسی کے آلے نسب کرنا
  • زیرِ آب پانیوں میں موجود مواصلاتی کیبلز کی نگرانی

اس تحقیق میں ان یویوویز کی طاقت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ایک گلائڈر یعنی چھوٹا یویووی ’مہینوں‘ تک نگرانی کا کام دے سکتاہے اور یہ ‘اتنا سستا ہے کہ اگر پکڑا بھی جائے تو نقصان بڑا نہیں۔‘

تاہم اس مثال میں سستے سے مراد ‘صرف ہزاروں ڈالرز ہے’

ان کی قیمت، مہارت اور رینج کے باعث یہ ’زیرِ آب جاسوسوں‘ کی بڑی اہمیت ہیں۔ ایلگزینڈر نیل کے مطابق پوری دنیا میں ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

اس سے یہ اس سوال کی تو کچھ حد تک واضاحت ہو جاتی ہے کہ یہ آلات چینی مچھیروں کے جال میں کیوں پھنس جاتے ہیں۔

تاہم یہ بھی واضح رہے کہ چین میں مچھیروں کی ایک بڑی تعداد ہے جس کے باعث ان کا زیرِ آب ڈرونز پکڑنے کا امکان زیادہ ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ چین کے مچھیرے دیگر ممالک سے مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ مچھیرے تو بذارتِ خود فوج کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ جاننا کہ یہ یونٹ کیسے کام کرتی ہے اس بات کی وضاحت کر دے گا کہ انھیں یہ فوجی آلات کیسے مل جاتے ہیں۔

چین کی میریٹائم ملیشیا قومی ملیشا یعنی ریزرو سویلین فوج کا حصہ ہے۔

امریکہ کے نیول وار کالج کے پروفیسر اینڈریو ایس ایرکسن کے مطابق یہ فوج ’حقیقی طور پر بے مثال اور دنیا کی نگاہوں سے چھپی ہوئی ہے‘ لیکن امریکی افواج اس کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے سنہ 2017 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس قومی ملیشا سی ایم ایم نے ’متعدد فوجی مہمات اور دیگر واقعات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ماضی میں سی ایم ایم کمپنیوں یا مچھیروں سے کشتیاں کرائے پر لیتی تھی۔ تاہ محکمہ دفاع کے مطابق اب ’چین ایک مچھیروں کا بیڑا بنا رہا ہے جسے حکومتی سرپرستی حاصل ہو گی۔‘

ایلیگزینڈر نیل کے مطابق متعدد کشتیاں ’ظاہری طور پر تو مچھلیاں پکڑنے کی غرض سے گھوم رہی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ چین کے دشمنوں کی بحری نگرانی کر رہی ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ظاہری طور پر تو وہ آپ کو نفیس اور جدید طرز کی مچھلی پکڑنے والی کشتی لگے گی، تاہم اصل میں وہ بحری فوجی جہاز کی طرز پر بنے ہوتے ہیں اور ان کی ساخت فولاد ہوتی ہے نہ کہ لکڑی سے بنائی ہوئی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اگر آپ تصاویر کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ ایک نیٹ ورک کے ذریعے کام کرتے ہیں اور ان میں کمانڈ اینڈ کنٹرول نیٹ ورک کے ذریعے آپس میں رابطے کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘

درحقیقت مچھیروں کا یہ بحری بیڑہ جاسوسی یا دفاع کے وقت پہلی رکاوٹ ثابت ہو گا۔ یہ سویلین کے روپ میں فوج کا کام ے رہی ہے۔

نیل کا کا کہنا ہے کہ ’چین کے مچھیروں کی ایک بڑی تعداد کو ملیشیا میں بھرتی کر لیا جاتا ہے۔

’میرے خیال میں اگر آپ تھوڑی سی تحقیق کریں تو آپ کو یہ مچھیرے (جیانگسو میں انعام جیتنے والے) اسی ملیشیا کا حصہ ہوں گے۔‘

چین صرف زیرِ آب ڈرونز پکڑتا نہیں ہے بلکہ ان کے ذریعے خود بھی جاسوسی کرتا ہے۔

چین کی 70 سالگرہ کے موقع پر ہونے والی فوجی پریڈ میں ایک بڑا یویو وی ایچ ایس یو 001 بھی موجود تھا، جس میں ممکنہ طور پھر چھوٹے ڈرون لانچ کرنے کی صلاحیت تھی۔

تصویر

پانچ ماہ قبل، ایک اور چینی یویووی اس وقت منظرِ عام پر آیا تھا جب انڈونیشیا کے مچھیروں نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک ’میزائل‘ پکڑا ہے جس پر چینی زبان میں حروف درج ہیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک میزائل نہیں بلکہ سمندری ڈرون ہے جسے زیرآب تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘

حالانکہ یہ معلوم نہیں ہو سکا یہ ڈرون کس ملک کا تھا تاہم ماہرین کے مطابق یہ چین کی زیرِ آب نگرانی کے نیٹ ورک کا حصہ تھا جسے ’زیرِ آب دیوار چین‘ بھی کہا جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ یویووی ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ چین، انڈونیشیا اور خطے میں دیگر ممالک کے مچھیرے مزید ڈرونز پکڑنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔

نیل کے مطابق: ’اسے خطے میں موجود جدید بحری افواج کو یہ ڈرونز جاسوسی کرنے کی صلاحیت بخش رہے ہیں۔‘

اور جیسے جیانگسو میں انعام جیتنے والوں سے ثابت ہوتا ہے کہ انھیں پکڑنا انتہائی منافع بخش ہو سکتا ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp