امریکہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان: ’افغانستان میں طالبان تشدد کم کرنے پر رضامند ہیں‘


پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعے کو امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے واشنگٹن میں ملاقات کی ہے۔ امریکہ میں دفتر خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں کے بیچ ملاقات میں ایران امریکہ کشیدگی کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل اور باہمی اقتصادی تعلقات کی بہتری کے لیے بات چیت ہوئی ہے۔

ملاقات کے بعد ایک ٹویٹ میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں امن کے لیے امریکہ اور پاکستان کا اکٹھا ہونا ایک اچھا موقع پیدا کرتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے۔‘

واشنگٹن میں بی بی سی کے نمائندے ونیت کھرے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی امریکہ میں مصروفیات دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کی افغانستان کے مسئلے پر ٹرمپ انتظامیہ سے اہم بات چیت ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں کے بعد شاہ محمود قریشی ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے واشنگٹن میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’افغانستان سے امریکی فوجیوں کا اچانک انخلا خطرناک ہو گا‘

افغان مذاکرات میں ’پیشرفت‘ لیکن معاہدے میں وقت لگے گا

’کوشش ہے کہ ایران، سعودی تعلقات خراب نہ ہوں‘

قریشی

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعے کو اس کی تصدیق کی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لکھا کہ: ’طالبان وفد اور امریکہ مذاکراتی ٹیم کے درمیان بدھ اور جمعرات کو امن معاہدے پر بات چیت ہوئی تھی۔ ’یہ بات چیت کارآمد ثابت ہوئی اور اسے آئندہ کچھ دنوں تک جاری رکھا جائے گا۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کو طالبان رہنماؤں نے 10 دن تک امریکی فوج کے ساتھ جنگ بندی کی حامی بھری ہے جس کے تحت افغان حکومت اور ان کے بیچ پرتشدد واقعات میں کمی لائی جائے گی۔

ایک سینیئر طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ: ’امن مذاکرات کے دوران امریکہ ہم سے چاہتا تھا کہ ہم جنگ بندی کا اعلان کریں لیکن ہم نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ اب ہماری کونسل نے امن معاہدے تک جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘

تاہم امریکہ کے دفتر خارجہ نے تاحال طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

’افغانستان سے امریکی انخلا ذمہ داری سے ہو‘

واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران جب شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ: ’طالبان اور امریکہ افغانستان میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ تو اس لیے عدم اعتماد کی فضا ہے۔ اعتماد کی بحالی میں وقت لگے گا۔ میرے مطابق ان کے درمیان مذاکرات ایک اہم قدم تھا۔‘

’یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کچھ عناصر مذاکرات میں رکاوٹ ڈالیں گے جو افغانستان میں استحکام اور امن کے لیے ایک خطرہ ہیں۔‘

پاکستان کی جانب سے طالبان کے جنگ بندی کے اعلان پر انھوں نے کہا کہ: ’افغانستان کے تناظر میں ہمارا اصولی فیصلہ پرتشدد واقعات میں کمی لانا ہے۔‘

’تشدد میں کمی سے مراد کچھ عرصے کے لیے جنگ بندی ہے تاکہ دونوں فریقوں میں اعتماد بحال ہو سکے۔۔۔ اسے صرف شہروں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ اس فیصلے کو ہر جگہ نافذ کرنا چاہیے۔‘

پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ: ’افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات چل رہے ہیں جن میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ جب اعلان کیا گیا تو میں امریکہ میں تھا۔ اس اعلان کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے واضح کیا کہ: ’تشدد میں کمی کو وہ (طالبان) بہتر نگاہ سے دیکھیں گے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کو مذاکرات کرنے ہیں تو اسی دوران لڑائی روکنی ہوگی۔ مذاکرات سے جنگ بندی ہوگی تو یہ ایک اچھی اطلاع ہے۔‘

امریکی فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ: ’صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی فوجوں کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان کی مدد مانگی ہے تاکہ افغانستان میں بیرون ممالک کی افواج کا انخلا ممکن ہو سکے۔

’ہم نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں مدد کی ہے، اس امید میں کہ امن اور استحکام بحال ہوسکے۔ ہم نے کہا ہے کہ آپ ذمہ داری کے ساتھ فوجی انخلا ممکن بنائیں تاکہ 1980 کی دہائی کی طرح دوسری طاقتیں وہاں آکر پناہ نہ لیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp