کارپوریٹ دنیا


کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے کمرے کے وسط میں رکھی مستطیل بھورے رنگ کی میز کے اِردگرد بیٹھنے والوں پر نظر دوڑائی۔ تقریباً سبھی چہرے شناسا تھے۔ اسی کنڈومنیم بلڈنگ کے رہائشی۔ یہ تمام افراد اپنے اپنے سیوٹ کے مالک تھے۔ کرایہ دار اس بلڈنگ میں رہ سکتے تھے، مگر اس اجلاس میں شرکت کا حق صرف مالکان کو حاصل تھا۔

میز کے آخری کونے پر بیٹھے جارج نے مجھے دیکھتے ہی اپنے برابر والی کرسی کی طرف اِشارہ کیا۔ میں ہائے۔ ہیلو۔ کا وِرد کرتی، جا کر اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ چند منٹوں بعد کمرہ بھرا بھرا سا لگنے لگا۔ میز کے اطراف بائیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ چند لمحوں میں صرف دو کرسیاں خالی رہ گئیں، مجھے حیرت اُس وقت ہوئی جب مسز برآون نے کمرے میں قدم رکھا اور ایک طائرانہ نظر دونوں خالی کرسیوں اور ان کے درمیان بیٹھے لمبے تڑنگے شخص پر ڈالی اور ہونٹ سکیڑتی ہوئی باہر کی طرف مڑ گئیں۔

چند ثانیوں بعد ایک گہری شربتی آنکھوں اور پیلے بالوں والی نازک سی خاتون داخل ہوئی۔ کرسیوں کی طرف دیکھا اور پھر قدرے پریشانی کے عالم میں بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ ایک مہذب نظر آتے، کوٹ سوٹ میں ملبوس، درازقد ہسپانوی نین نقش والے شخص نے بڑی احتیاط سے اُٹھتے ہوئے، دائیں ہاتھ کو اپنے سینے پہ یوں ہاتھ رکھا کہ ٹائی اور شرٹ کا درمیانی فاصلہ غیرمعقول محسوس نہ ہو، سنہری آنکھوں والی خاتون کو اپنی کرسی اِشارتاً آفر کی اور خود باہر چلا گیا۔ چند لمحوں بعد وہ ایک خالی کرسی اُٹھا کر اندر آیا اور کمرے کے تقریباً کونے میں اسے رکھ کر بیٹھ گیا۔

دوخالی کرسیوں کے درمیان بے ڈھنگے نقوش اور گھنگھریالے بالوں والا سیاہی مائل شخص، زرد رنگ کا کارڈ یگن اور براؤن جینز پہنے۔ ٹیبل کے عین درمیان نظریں گاڑے بیٹھا یا تو ان حرکات و سکنات سے مکمل بے خبر تھا یا بے خبر ہونے کی اچھی اداکاری کر رہا تھا۔ جب سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر بیٹھ گئے تو میں نے دیکھا، اس کی ساری توجہ اب اپنے ہاتھوں میں پکڑے ڈائس کی طرف تھی، جسے وہ وقفے وقفے سے اپنے سامنے میز پر گھما دیتا اور پھر محتاط نظروں سے اپنے سامنے والا نمبر پڑھ لیتا۔ کچھ ہی دیر میں کارروائی کا آغاز ہو گیا۔ یہ بلڈنگ انتظامیہ کے سکیورٹی افراد کے ساتھ رہائشی خواتین و حضرات کی سالانہ میٹنگ تھی، جس میں سیکیورٹی کے مسائل سے لے کر مینٹینس اور ریک سینٹر میں فٹنس کی مشینوں سے لے کر سوئمنگ پول وغیرہ کے معاملات شامِل تھے۔

میٹنگ ختم ہوئی تومیں نے شعوری طور پر جلد اُٹھنے سے احتراز کیا۔ جلد ہی کمرے میں صرف ہم دو تھے میں نے موقع غنیمت جانا اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کر اسے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ ہیلو، مسز لغاری۔

اس نے میرے مصافحے کے لیے آگے بڑھے ہاتھ کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے، بیٹھے بیٹھے اپنی کرسی پیچھے کی طرف دھکیلی۔ ”جانسن“ سپاٹ لہجے میں کہا گیا

۔ ایک لفظ۔ اس کا تعارف تھا، ”جانسن“

اور بغیر کچھ کہے۔ کمرے میں سے نکل گیا۔

میرا خیال ہے میرے لیے اس چھوٹے سے واقعے کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے تھی مگر کمرے میں موجود لوگوں کا رویہ، جانسن کا سپاٹ چہرہ، اس کے دائیں بائیں دوعدد خالی کرسیاں اور کسی کا ان خالی کرسیوں پر نہ بیٹھنا بلکہ باہر سے کرسی لا کر میٹنگ اٹینڈ کرنا، میرے ذہن میں عجیب سی بے چینی پیدا کر گیا۔ مجھے اِس عمارت میں رہتے ہوئے قریباً ایک سال ہو گیا تھا۔ یوں تو لوگ ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، یا نام سے واقف نہیں تھے مگر کوریڈور سے گزرتے ہوئے، لفٹ میں آتے جاتے، سوئمنگ پول پر یا جم میں نظر آنے والے چہرے مانوس مانوس سے لگنے لگے تھے۔ گو جانسن سے یہ میری پہلی ملاقات تھی، ملاقات تو شاید اسے نہیں کہنا چاہیے۔ پہلی بار آمنا سامنا ہوا تھا۔ سپاٹ چہرے والا انسان، جیسے پوری دُنیا کے مدمقابل اکیلا کھڑا انسان۔

جانسن کو دوسری بار میں نے خریداری کرتے دیکھا۔ سبزی اور فروٹ کا اسٹور اس بلڈنگ کے بالکل سامنے ہی تھا۔ اِتفاق سے ہم دونوں آمنے سامنے تھے۔

ہائے۔ میں نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔

بغیر آواز نکالے اس نے ہلکے سے گردن کے خم سے میرے خیرمقدمی کلمے کا جواب دیا۔

مجھے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔

میں نے شاپنگ لسٹ کے ہر آئٹم پر کراس لگا دیا تھا۔ خریداری کے وقت تو احساس نہیں ہوا کہ کتنی چیزیں خریدنی ہیں اور کیا میری ٹرالی میں پوری بھی آ سکیں گی یا نہیں۔ بہرحال۔ جب سامان کنوینربیلٹ سے گزرا اور میں نے اسے اپنی ٹرالی میں فٹ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سامان مقدار و تعداد دونوں میں زیادہ ہے۔ یہاں وہاں پیکٹ پھنسانے کی کوشش کی مگر کئی پیکٹ اور بریڈ کے ساتھ ساتھ دہی کے ڈبے بھی اضافی سامان میں موجود تھے۔

گڈنیس می! ”میں نے پریشان ہو کر سوچا۔ یہ ٹرالی تو گھر تک گھسیٹ لوں گی مگر اس سامان کو کیسے ہینڈل کروں۔ یاد آیا کہ کاٹن کا ایک بڑا سا تھیلا بوقت ضرورت کام آنے کے لیے میں نے پرس میں لپیٹ کر رکھا ہوا ہے۔ کچھ سامان اس میں آ گیا مگر اب بھی مسئلہ تھا کہ سامان کیسے اُٹھایا جائے۔

ایک ہاتھ سے بھاری بھرکم ٹرالی گھسیٹتے ہوئے، دائیں شانے پہ سامان سے لدا بیگ اور پرس ڈالا۔ اور دہی کے دونوں ڈبے کہنی پہ سنبھالتے ہوئے میں نے اسٹور سے باہر نکلنے کی کوشش کی کہ پیچھے سے ایک بھاری بھرکم آواز آئی۔

Need any help؟

میں نے رُک کر پیچھے دیکھا کہ کیا کسی نے مجھے کچھ کہا ہے۔

”اوہ جانسن“ غیراِرادی طور پر میرے منہ سے نکلا۔ وہ چند شاپر اُٹھائے اجنبی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ کیا تم یہ بیگ اُٹھا سکتے ہیں۔ میں نے بڑے لحاظ سے اس سے پوچھا۔

بجائے جواب دینے کے، اس نے ٹرالی میرے ہاتھ سے لے لی اورمیرے آگے چلنے لگا۔ مجھے حیرت تو ہوئی مگر میں اطمینان سے اس کے پیچھے چلتی رہی۔ ٹریفک لائٹ کے پاس پہنچتے ہی جیسے ہی روڈ کراس کرنے کا اِشارہ دِکھائی دیا۔ اس نے لمبے لمبے ڈگ بھر کر روڈ پار کیا اور بلڈنگ کی طرف چلنے لگا، مجھے اس سے کم از کم فاصلہ رکھنے کی کوشش میں تقریباً دوڑنا پڑ رہا تھا۔ بلڈنگ میں داخل ہونے کے لیے مختلف بٹنز کا اِستعمال کرتے ہوئے جب میں لفٹ کے قریب پہنچی تووہ ٹرالی وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

”مسٹر جانسن“ میں نے پکارا۔

”Yes“

وہ پلٹا۔ وہی بے گانگی اور سپاٹ پن مگر آنکھوں میں اجنبیت کی جگہ پہچان کا ہلکا سا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔

”Do you live in this block؟ “

’Yes‘ پھر مختصر سا جواب۔

”I also live here۔ “

ok،

کہتے ہوئے، جانسن نے آہستہ سے بائے کہا۔

نے رسمی شکریہ اداکرتے ہوئے اپنا سامان سنبھالا اور لفٹ میں داخل ہو گئی۔ میں

یہ کھردرے لہجے، بھدے نقوش اورغیرمعمولی قدوقامت کا مالک اور قدرے غیرشائستہ نظر آنے والا جانسن میرے ذہن میں ایک سوالیہ نشان سا بن کے رہ گیا تھا۔ الگ تھلگ وہ تھا یا پوری بلڈنگ میں رہنے والے افراد؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments