ہمارے شاعر ادیب کیا بیچتے ہیں؟


دوستوں کی محفل میں گپ شپ ہو رہی تھی، کوئی خاص موضوع نہیں تھا، کبھی مذہب پر گفتگو ہونے لگتی تو کبھی کوئی دوست فلسفے کی گتھیاں سمجھانے لگ جاتا، کبھی موسیقی پر بات شروع ہو جاتی تو کبھی کوئی یارادب پر بحث شروع کردیتا۔ ایسے میں ہمارے ایک نسبتاً سینئر ادیب کا ذکر چھڑ گیا جن کے ہم سب ہی مداح تھے، ایک دوست نے کہا کہ اِس وقت ملک کے بہترین ادیبوں میں اُن کا شمار ہوتا ہے اور اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ کبھی متنازعہ شخصیت نہیں رہے، کسی کنٹراورسی میں اُن کا نام نہیں آیا، شاعری میں انہوں نے مقام بنایا، نثر بھی خوب لکھی، دنیا بھر سے عزت سمیٹی، یہی ایک بڑے ادیب کی شان ہے۔ ’ہم بھی وہاں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے، ہم ہنس دیے ہم چُپ رہے، منظور رتھا پردہ ترا۔ ‘

محفل برخواست ہوئی تو میں نے اپنے اُس دوست سے پوچھا کہ اگر کوئی ادیب کسی قومی معاملے پر کوئی موقف ہی اختیار نہیں کرتا، حق اور باطل کے درمیان غیر جانبدار رہتا ہے اور اپنی اِس ”غیر وابستہ“ پالیسی کی وجہ سے ہر قسم کے تنازعات سے خود کومحفوظ رکھتاہے تو کیاواقعی ایسا شخص بڑا ادیب کہلائے گا؟

میرے دوست نے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ ”دراصل تم قنوطی ہو چکے ہو، کسی بات میں تمہیں خیر کا پہلو نظر نہیں آتا، ہر بات کو منفی انداز میں دیکھتے ہو، ایک غیر متنازعہ ادیب جس کا کوئی سکینڈل نہیں، جس کے دامن پر کوئی داغ نہیں، جو اِس ملک کا بڑا لکھاری، شاعر اور دانشو ر ہے، جسے دینے کے لیے ہمارے پاس عزت و احترام کے سوا کچھ نہیں، اُس ادیب کی شخصیت میں بھی تم نے کیڑے نکالنے شروع کر دیے ہیں، اگر تم اسی طرح ہر بندے کو چھلنی سے گزارنا شروع کردو گے تو پھر اِس ملک میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں بچے گاجس پر ہم فخر کر سکیں، پہلے ہی اِس قوم کے پاس رول ماڈل کم ہیں، اوپر سے تم اپنا ترازو لے کر کھڑے ہو گئے، تمہارا یہ نظریے والا فلسفہ ہر جگہ لاگو نہیں ہو سکتا، ایک ادیب کو یہ معاشرہ دیتا ہی کیا ہے، اِس کے باوجود یہ بیچارے کبھی اپنی تحریروں سے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو کبھی شاعری میں اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں، اور اب تم کیا چاہتے ہو کہ یہ اپنا سر کٹا دیں؟ “

بندہ جب جذباتی ہو جائے تو موضوع تبدیل کر دینا چاہیے، میں نے بھی یہی کیا اور اُس سے خوبصورت عورتوں کے متعلق گفتگو شروع کر دی، یہ بات چیت ایک گھنٹہ جاری رہی، حیرت انگیز طور پر اِس دوران ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہوا۔

اِس قحط الرجال میں بھی ہمارے پاس شاعر وں ادیبوں کی کمی نہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے ادیب زندگی کا بیان کیسے کرتے ہیں، اپنے وجاہت مسعود اسے Critique of Life کہتے ہیں، یہ بحث ترقی پسند تحریک سے ذرا مختلف ہے۔ برصغیر کے ترقی پسند بھی ایک نظریے سے جُڑے تھے جو کمیونزم سے متاثر تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ دنیا کے تمام مسائل اقتصادی ہیں، ترقی پسند تحریک کے منشور میں کسانوں، مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی بات کی گئی تھی اور اِن ادیبوں کا ماننا تھا کہ ادیب کو اپنی تحریروں کے ذریعے اِس مقصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ اِس پر طویل بحثیں موجود ہیں جو ادبی تاریخ کا حصہ ہیں، آج کمیونزم کا رومان ختم ہو چکا ہے، ترقی پسند تحریک نہیں رہی مگر سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ہمارے ادیب، شاعر اور دانشور کسی قومی معاملے پر بغیر کوئی پوزیشن لیے غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھ کریہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے واقعی ادب کی کوئی خدمت کی ہے؟

اگر ایک فنکار کے پاس اپنے زمانے اور عہد کے متعلق کہنے کو کچھ نہیں تو پھر اُس کی تخلیق کی حیثیت محض ڈیکوریشن پیس کی ہے، ادیب اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اگر اسے اپنے تحریروں میں لانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا تو پھر اُس کے ادب اور شاعری کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں زبان دی تاکہ تم بیان کر سکو (مفہوم) ، اب اگر ظلم کے دور میں ادیبوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں اورشاعر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ انہیں کسی نظریے کی حمایت کی پاداش میں تکلیف نہ اٹھانی پڑے تو پھر ایسے ادیبوں شاعروں کے فن پاروں کوکتب خانوں میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اصغر ندیم سید صاحب سے بات ہو رہی تھی، کہنے لگے کہ ترقی پسند تحریک تو ا ب نہیں رہی مگر آج بھی میں یہ مانتا ہوں کہ اگر ادیب کوئی موقف لینے سے گھبراتا ہے، پوزیشن نہیں لیتا، نظریہ نہیں اپناتا تو وہ خالص ادیب نہیں۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں فنون لطیفہ کی بہت سی اقسام ہیں، لوگ ٖڈرامے لکھتے ہیں، فلمیں بناتے ہیں، مصوری کرتے ہیں، شاعری کرتے ہیں، افسانے لکھتے ہیں، اب کیا ہر ادبی فن پارہ اور آرٹ کا ہر نمونہ اسی کسوٹی پر پرکھا جائے کہ اُس میں critique of life ہے یانہیں اور اگر نہیں ہے تو کیاڈراؤنی فلموں، مزاح پاروں اور رومانوی شاعر ی کو آگ لگا دی جائے، اِس تو ادب اور آرٹ دونوں ہی فوت ہی ہو جائیں گے؟ دراصل ادب مجموعہ ہے تین چیزوں کا، درد، جشن اور خواب۔

سن 47 ء میں بٹوارہ ہوا، اِس درد کو اُس وقت کے ادیبوں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا، زندگی کے اسی بیان کی امید ایک ادیب سے کی جاتی ہے۔ سن 71 ء میں بھی ہمیں زخم لگا تھا مگر اس کا بیان ویسے نہیں ہوا جیسے کیا جانا چاہیے تھا، جی ہاں انتظار حسین کے کچھ افسانے ہیں، اکا دکا ادیب شاعر اور بھی ہیں، اس سے زیادہ مگر کچھ نہیں۔ اسی طرح جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اپنے جوانوں کے لاشے اٹھا رہے تھے تو کتنے شاعر ادیب تھے جنہوں نے اِس درد کو محسوس کیا اور کوئی واضح پوزیشن لے کر اظہا ر خیال فرمایا؟

ہاں، کچھ شاعری نظر سے گزری مگر ایسی جس سے یہ پتا نہ چلتا تھا کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون! اسی طرح آرٹ میں جشن کا اظہار بھی ہوتاہے، جوانی کا جشن، موسم کا جشن، تہوار کا جشن، ادیب اور فنکار اپنے ماحول سے یہ جشن کشید کرتے ہیں اور انہیں اپنی تحریروں اور فن پاروں کا حصہ بناتے ہیں مگر ایک شعور کے ساتھ۔ مثلاً ایک گینتی اور ہتھوڑی تو شاید کسی ترکھان کے پاس بھی ہو مگر وہی گینتی جب مائیکل اینجلو کے ہاتھ میں آتی ہے تو آرٹ کے نمونے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، لکشمی چوک کے سنیما گھروں کے بورڈ پر فلمی ہیروئین کی ہیجان انگیز تصاویر بنانے والے کے ہاتھ میں بھی برش ہوتا ہے مگر وہی برش جب صادقین کے ہاتھ میں آتا ہے تو وہ پینٹنگ میں معنی بھر دیتاہے، ہرے بھرے کھیتوں، آموں کے باغوں کی سرزمین میں صادقین اگرکیکٹس بنا رہا ہے تو لا محالہ وہ زندگی کا بیان کر رہا ہے۔ درد، خواب اور جشن کے اظہار میں فرق صرف شعور کا ہوتا ہے، مزاح یوسفی نے بھی لکھا اور ہنسی ہمیں بھارتی ٹی وی شو دیکھ کر بھی آتی ہے، فرق اُس شعور کا ہے جو ایک خالص ادیب کا خاصا ہے۔

لوگ بھلے ڈراؤنی فلمیں بنائیں، مزاح پارے لکھیں، رومانوی شاعری کریں لیکن اگر یہ سب شعور سے عاری ہے تو اس کی حیثیت آرٹ کے ڈرائنگ روم میں محض نمائشی ٹکڑے کی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اپنے ہاں ایسے ہی شاعر وں ادیبوں کو ہم سر پر بٹھاتے ہیں جو ڈیکوریشن پیس بنانے کا کام کرتے ہیں۔

قومی معاملات میں موقف اپنانے والے اول تو کم ہیں اور اگر ہیں تو انہیں ہم متنازعہ اور جانبدار کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کے درمیان غیر جانبدار رہنے کا مطلب ہے کہ آپ ظلم کے ساتھ ہیں۔ ایک ادیب یا فنکار جو قدرتاً لبرل اور حساس ہوتا ہے، اسی سانس میں ظالم کا ساتھی نہیں ہو سکتا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر وہ آرٹسٹ نہیں، لکشمی چوک کا پینٹر ہے!
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 496 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments